تربیت و پرورش

1حقیقی اسلامی تربیت کیسے ممکن ہے؟
یہ بات کسی سے بھی مخفی نہیں ہے کہ اس وقت علم اور عمل دونوں میں جدائی اور دراڑیں پڑ چکی ہیں، معرفت اور تربیت جدا جدا ہو چکے ہیں، اس بات سے بہت سے عام و خاص لوگ واقف بھی ہیں، پھر بھی ان میں سے بہت سے لوگوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ تربیت اصل میں نظریاتی چیز ہے، اس کا تعلق صرف اس بات سے ہے کہ والدین اپنے بچوں کے ذہنوں کو مختلف علوم و فنون سے بھر دیں، ان کی کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ تربیت سے متعلق تحقیقی مقالہ جات اور کتب تک رسائی ہو ، یہاں تک کہ کچھ لوگوں نے شرعی نصوص کو صرف فنون و معارف پر بند کر دیا اور اس میں جو تربیتی پہلو تھا اس سے پہلو تہی کر لی۔ اس کی مثال یہ ہے کہ انہوں نے فرمانِ باری تعالی : إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ [غافر:28]کا ترجمہ یوں کیا ہے کہ بیشک اللہ تعالی سے علم والے ہی ڈرتے ہیں۔ اور اس آیت کو ہر شخص پر فٹ کر دیا جو کسی بھی علم کا جاننے والا ہے چاہے وہ شرعی علوم ہوں یا دنیاوی فنون، حالانکہ آیت میں کا مطلب یہ تھا کہ جو اللہ تعالی سے ڈرتا ہے وہ عالم ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ "مجموع الفتاوى"( 7/539)میں کہتے ہیں: "فرمانِ باری تعالی : إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ [غافر:28] اس کا مطلب یہ ہے کہ جو بھی اللہ تعالی سے ڈرتا ہے وہ عالم ہے، یہ معنی درست اور صحیح ہے، اس آیت کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ جو بھی عالم ہے وہ اللہ تعالی سے ڈرتا ہے۔" انتہی اسی طرح ایک اور جگہ "مجموع الفتاوى"( 7/21)کہتے ہیں: "معنی یہ ہوا کہ اللہ تعالی سے صرف عالم ہی ڈرتا ہے؛ چنانچہ یہاں پر اللہ تعالی نے خبر دی ہے کہ جو بھی اللہ تعالی سے ڈرتا ہے وہ عالم ہے، جیسے کہ ایک دوسری آیت میں فرمایا: أَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ آنَاءَ اللَّيْلِ سَاجِدًا وَقَائِمًا يَحْذَرُ الْآخِرَةَ وَيَرْجُو رَحْمَةَ رَبِّهِ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ ترجمہ: کیا (ایسا شخص بہتر ہے) یا وہ جو رات کے اوقات قیام اور سجدہ میں عبادت کرتے گزارتا ہے، آخرت سے ڈرتا ہے اور اپنے پروردگار کی رحمت کا امیدوار ہے ؟ آپ ان سے پوچھیں: کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں برابر ہو سکتے ہیں ؟ [الزمر: 9]"انتہی جس آیت کی طرف شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے اشارہ کیا ہے یہ بھی ان آیات میں سے ہے جنہیں ان کے معنی سے ہٹ کر بیان کرتے ہوئے علم و معرفت کی شان ذکر کی جاتی ہے، چاہے علم و معرفت عمل اور تربیت سے عاری ہی کیوں نہ ہوں؛ کیونکہ وہ آیت کا صرف آخری حصہ ذکر کرتے ہیں ابتدا والا حصہ بیان نہیں کرتے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ: قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ آیت کا آخری حصہ ابتدائی حصے: أَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ آنَاءَ اللَّيْلِ سَاجِدًا وَقَائِمًا يَحْذَرُ الْآخِرَةَ وَيَرْجُو رَحْمَةَ رَبِّهِ کی تفسیر بیان کرتا ہے، چنانچہ اس آیت کے آخری حصے میں جاننے والے لوگوں سے مراد وہ ہیں جو اللہ تعالی کیلیے رات کے وقت میں خشوع و خضوع کے ساتھ کھڑا ہو کر قیام کرتے ہیں ، اللہ کی جہنم سے ڈرتے ہیں اور جنت و رحمت کی امید لگاتے ہیں ، اور جو ایسا نہیں کرتے وہی حقیقت میں اس سے غافل ہیں، اب ان دونوں مفہوموں میں خود ہی غور و فکر کر لیں ! یہی وجہ ہے کہ امام ابن قیم رحمہ اللہ "مفتاح دار السعادة" (1/89) میں اسی قاعدے کو ثابت کرتے ہوئے کہتے ہیں: "سلف لفظ فقہ کا اطلاق علم پر اس وقت تک نہیں کرتے تھے جب تک وہ عمل کے ساتھ مقرون نہ ہوتا" انتہی تو یہ ہے ہمارے سلف صالحین کے ہاں فقہ کی حقیقت ہے، یعنی وہ علم جس کے ساتھ عمل بھی ہو، تو جس وقت بہت سے تربیت کرنے والوں اور اساتذہ کے ذہنوں سے یہ حقیقت اوجھل ہو گئی تو وہ ذہن میں صرف معلومات بغیر کسی عملی تربیت کے داخل کرنے لگے، جن میں دلوں کی اصلاح، نفس کا مقابلہ، اخلاقی تعمیر کا کوئی تصور نہیں ، کیونکہ انہوں نے سمجھ لیا کہ علم سے مراد معلومات اور انہیں سمجھنا ہے اور بس ، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے! اخلاقیات اور دین پر تربیت صرف ربانی افراد کے ہاتھوں ہی ہوتی ہے، چاہے وہ علماء کی صورت میں ہوں یا واعظین ، مصلحین اور معلمین کسی بھی صورت میں ہوں۔ ربانی اس شخص کو کہتے ہیں: جس کا ربِ کریم کے ساتھ علمی، عملی اور تعلیمی تعبلق بہت بلند اور نسبت بہت عالی ہو۔ فرمانِ باری تعالی ہے: وَلَكِنْ كُونُوا رَبَّانِيِّينَ بِمَا كُنْتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ وَبِمَا كُنْتُمْ تَدْرُسُونَ ترجمہ: تم سب رب کے ہو جاؤ اس لیے کہ تم کتاب کی تعلیم سکھاتے ہو اور خود بھی اسے پڑھتے ہو ۔[آل عمران:79] امام شوکانی رحمہ اللہ فتح القدیر: (1/407) میں کہتے ہیں: "ربانی: رب کی جانب نسبت ہے، اس میں الف اور نون کا اضافہ مبالغے کیلیے ہے، جیسے کہ عربی زبان میں بہت بڑی لحیہ یعنی داڑھی والے شخص کو لحیانی کہا جاتا ہے، اسی طرح عربی زبان میں بڑے بالوں والے کو جمہ سے جمانی اور ایسے ہی موٹی گردن والے کو رقبہ سے رقبانی کہا جاتا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ: ربانی اس شخص کو کہتے ہیں جو لوگوں کی تربیت بڑے علوم سکھانے سے قبل چھوٹے علوم کے ساتھ کرتا ہے، تو گویا کہ وہ شخص معاملات کی آسانی کرنے میں رب کریم کے طریقے پر چلتا ہے" انتہی خلاصہ یہ ہے کہ: عمل سے عاری باتوں کا نام تربیت نہیں ہے، اسی طرح ایمانی مفہوم سے خالی محض معلومات کا مجموعہ بھی تربیت نہیں کہلاتا، بلکہ تربیت کا دار و مدار اس قوت کے حصول پر ہے جس کی دل میں گہرائی بہت زیادہ ہو، تربیت لینے والے کے پاس علم اور حلم دونوں یکجا جمع ہوں، حکمت و فہم ، علم و عمل اور اس کی نشر و اشاعت کا جذبہ دل میں ہو۔ یہی وجہ ہے کہ امام شوکانی رحمہ اللہ فرمانِ باری تعالی : " وَبِمَا كُنْتُمْ تَدْرُسُونَ " کے متعلق فرماتے ہیں: "جو "تَدْرُسُونَ " میں راء پر تشدید پڑھتے ہیں ان پر یہ تفسیر لازم ہے کہ ربانی افراد پر تعلیم و تعلّم کے ساتھ ساتھ ایک اور چیز کی ذمہ داری بھی عائد کریں، اور وہ یہ ہے کہ تعلیم و تعلم کے ساتھ اپنے من میں مخلص یا با حکمت یا حلم سے مزین ہو؛تا کہ سببیت کا معنی واضح ہو۔ اور جو اسے "تَدْرُسُونَ "ہی پڑھے تو اس کیلیے جائز ہے کہ وہ ربانی سے مراد ایسے لوگ لے جو کہ لوگوں کو علم سکھاتے ہیں، تو پھر اس آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ تم معلم بن جاؤ؛ کیونکہ تم علماء ہو اور تم علم سیکھتے ہو۔ اس آیت میں سب سے زیادہ اس بات کی ترغیب ہے کہ جسے علم ہے وہ اس پر عمل بھی کرے، اور علم پر عمل کی سب سے عظیم ترین شکل یہ ہے کہ اسے آگے پہنچائے، اور للہیت قائم رکھے" انتہی "فتح القدیر" (1/407) اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ ربانی تربیت کا مغز اور اس کی بنیاد یہ ہے کہ عملی تربیت ہو، محض زبانی اور عمل سے عاری تربیت نہیں ہونی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اپنے مفید رسالے "فضل علم السلف على علم الخلف" (ص 5) میں لکھا ہے کہ: "بہت سے متاخر لوگوں کو اس فتنے نے اپنے شکنجے میں جکڑ لیا اور وہ سمجھنے لگے کہ جس شخص کی گفتگو، مناظرے، اور دینی مسائل میں بحث و تمحیص بہت زیادہ ہے تو وہ دوسروں سے بڑا عالم ہے!! حالانکہ یہ جہالت کی انتہا ہے؛ ذرا اکابر صحابہ کرام اور ان میں سے اہل علم کی جانب دیکھیں : مثلاً: ابو بکر، عمر، علی، معاذ، ابن مسعود اور زید بن ثابت وغیرہ رضی اللہ عنہم ان کا کلام ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کم ہے، حالانکہ وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے زیادہ علم والے تھے۔ اس طرح تابعین کا کلام صحابہ کرام سے زیادہ ہے، حالانکہ صحابہ کرام ان سے زیادہ علم رکھتے تھے۔ اسی طرح تبع تابعین کا کلام تابعین سے زیادہ ہے، حالانکہ تابعین ان سے زیادہ علم رکھتے تھے۔ تو معلوم ہوا کہ علم کثرتِ روایات کا نام نہیں ہے، نہ ہی بہت زیادہ کلام کرنے کا نام علم ہے؛ علم تو دل میں ڈالا جانے والا ایک نور ہوتا ہے جس کے ذریعے بندہ حق سمجھ جاتا ہے، اور اس میں حق و باطل کے مابین امتیاز کرنے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے، چنانچہ وہ انتہائی مختصر عبارت میں ایسی گفتگو کرتا ہے جس کے ساتھ مقصود پورا ہو جاتا ہے" انتہی اور حقیقت میں یہی وہ سب سے بڑی مصیبت ہے جو کہ مسلم گھرانوں اور تعلیمی اداروں پر چھا گئی ہے، نیک صالح اور ربانی علمی نمونے مفقود ہیں، جو دوسروں کی تربیت اپنے اقوال کی بجائے اپنے افعال سے کریں، جو دوسروں کو سکھاتے ہوئے صحیح الفاظ کا چناؤ اور عمل صالح سے مدد لیں، اس کیلیے حکمت اور دینِ الہی کا درست فہم اختیار کریں اور یہ جانیں کہ اللہ تعالی اپنے بندوں سے کیا چاہتا ہے۔ ابن جوزی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "یہ بات جان لو کہ ادب کی مثال بیج جیسی ہے اور ادب سیکھنے والی کی مثال زمین جیسی ہے، اگر زمین خراب ہو گی تو بیج ضائع ہو جائے گا اور اگر زمین اچھی ہوئی تو بیج تن آور بن جائے گا" انتہی "الآداب الشرعية لابن مفلح" (3/580) یہی وہ بنیادی چیزیں ہی جن کی وجہ سے علمائے کرام اور مصلحین کی اولادیں نیک اور صالح تھیں، فقہائے کرام اور تربیت کنندگان کی انہی محنتوں سے لوگ سدھرے تھے، تاہم کچھ چیزیں ایسی ہیں جن میں اسباب کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا، ان کا تعلق براہِ راست پروردگار کے ساتھ ہوتا ہے جو کہ لوگوں کے اعمال کا بھی خالق ہے، وہی راہِ ہدایت کی رہنمائی کرنے والا ہے، تو زیادہ سے زیادہ تربیت کرنے والے جو کر سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ انہیں مؤدب اور مہذب بنائیں ، لیکن حقیقی اصلاح اور بہتری وہ صرف اور صرف اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عربی زبان میں مقولہ مشہور ہے: " الأدب من الآباء ، والصلاح من الله "[یعنی: ادب تو والدین سکھلا دیتے ہیں، لیکن حقیقی اصلاح اللہ کی جانب سے ہی ہوتی ہے] انتہی "الآداب الشرعية لابن مفلح" (3/552) آخر میں ان تمام اہداف کو پانے کا طریقہ چند نکات میں بیان کرتے ہیں: 1- سب سے پہلے واعظین اور اساتذہ کرام خود اپنے آپ کو تربیت کی حقیقت سے روشناس کریں۔ 2- اصلاح کرنے والے افراد تمام مسلمانوں کو ربانی تربیت کے وسائل سے آگاہ کریں۔ 3- اصلاح کرنے والے افراد مسلم معاشرے کی با اثر شخصیات کے تعاون سے تربیتی مراکز قائم کریں جو کہ معیار میں تعلیمی اداروں کے ہم پلہ ہوں، اور تربیت کرنے والے ایسے افراد کی تیاری عمل میں آئے جو یہ فریضہ انجام دے سکے۔

04/08/2023

2والدین بچوں کے جنسی اور حمل کے متعلق سوالات کا جواب کیسے دیں؟
یہ بہت اچھی بات ہے کہ والدین اپنے بچوں کے سوالات پر انہیں اپنی مکمل توجہ دکھائیں، چاہے والدین کا نظریہ ان کے سوالات کے بارے میں کچھ بھی ہو۔ والدین بالکل بھی ایسا رد عمل نہ دکھائیں جن سے بچے کو یہ لگے کہ امی ابو کو سوال ناگوار محسوس ہوا ہے؛ تا کہ بچے کو اپنے سوال کے متعلق کوئی مخصوص احساس نہ ہو۔ استفسار میں مذکور سوال پرتو خصوصاً ایسا جواب ہو جو بچے کو مطمئن کر دے، مثلاً جواب میں والدہ یہ کہہ دے کہ یہ اللہ تعالی کی قدرت سے ہوا ہے، اور اللہ تعالی زندہ کو مردہ سے پیدا کرتا ہے اور مردہ کو زندہ سے پیدا کرتا ہے، بچے کے لیے یہ بھی واضح کرے کہ اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا فرمایا، اور پھر آدم علیہ السلام کی بقیہ اولاد اور بیٹوں کو ماؤں کے بطن سے پیدا فرمایا، یہاں اللہ تعالی کی قدرت بھی عیاں ہوتی ہے کہ اللہ تعالی نے کس طرح اسے ماں کے پیٹ میں پیدا فرمایا، پھر ماں کے پیٹ میں اللہ تعالی نے اس کے لیے کیا کچھ انتظامات فرمائے تا کہ یہ جنین مقررہ مدت تک ماں کے پیٹ میں رہے، ماں بچے کو بتلائے کہ کس طرح سے جنین نطفہ سے علقہ بنتا ہے، پھر مضغہ اور پھر اس میں ہڈیاں بنتی ہیں۔ تو اس انداز سے والدہ اپنے بچے کو قدرت الہی سے متعارف کروائے کہ اللہ تعالی کس طرح اپنے بندوں کی تخلیق فرماتا ہے، پھر ان کا خیال رکھتا ہے اور کس طرح اللہ تعالی بچے کی پیدائش فرماتا ہے، پھر یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی نے ماں کے پیٹ میں بچے کے رزق کا انتظام فرمایا، اور بچے کو اس رزق کے لیے کچھ بھی نہیں کرنا پڑتا، اور نہ ہی ماں کو اس رزق کے لیے خصوصی کد و کاوش کرنی پڑتی ہے۔ یہ بھی واضح کرے کہ کس طرح اللہ تعالی نے جنین کو ماں کے پیٹ میں مقررہ مدت تک ٹھہرایا، اور پھر اللہ تعالی کی قدرت سے یہ بچہ ماں کے پیٹ سے اس طرح نکلتا ہے جیسے انڈے سے چوزہ برآمد ہوتا ہے۔ تو اس طرح والدہ اپنے بچے کے سوالات کا جواب دے سکتی ہے، اس عمر میں عمومی جوابات دیے جاتے ہیں جس کو سن کو بچہ مطمئن ہو جاتا ہے، پھر یہ عمومی جواب کوئی جھوٹ بھی نہیں ہے بلکہ یہ صحیح اور ثابت شدہ باتیں ہیں، یہاں یہ بھی بہتر ہو گا کہ قرآنی آیات کا تذکرہ بھی کیا جائے۔ اس سے یہ ہو گا کہ بچے کے ساتھ بات کرنے کا ایک بالکل ہی الگ تھلگ میدان سامنے آ جائے گا، اور حساس نوعیت کے پیچیدہ سوالات سے چھٹکارا بھی مل جائے گا، دوسری طرف جھوٹی اور غلط باتیں بھی بچوں کے ساتھ کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

04/08/2023

3کیا ماموں اپنی بھانجیوں کی بے پردگی پر ان کا احتساب کر سکتا ہے؟
اگر والد زندہ ہو تو ماموں اپنی بھانجیوں کا سرپرست اور ولی نہیں ہے والد اگر زندہ ہو، عقل مند، مکلف اور حاضر ہو تو ماموں اپنی بھانجیوں کا سرپرست اور ولی نہیں بن سکتا، یہ بات بالکل واضح ہے کہ والدین کی زندگی میں بچوں کی تربیت اور ان کی تمام تر ذمہ داری والدین پر ہی ہوتی ہے ؛ لہذا اللہ تعالی کے ہاں وہی اس ذمہ داری کے جواب دہ ہوں گے۔ جیسے کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور اس سے اُس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا: چنانچہ رعایا کا امیر، اپنی رعایا کا ذمہ دار ہے اور امیر سے رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ مرد اپنے گھر والوں کا ذمہ دار ہے اور اس سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ عورت اپنے خاوند کے گھر اور اس کے بچوں کی ذمہ دار ہے اور عورت سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ غلام اپنے آقا کے مال کا ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ توجہ کریں! تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے اور ہر ایک سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا۔) اس حدیث کو امام بخاری: (2554) اور مسلم : (1829)نے روایت کیا ہے۔ تاہم ماموں کی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے اعتبار سے ذمہ داری بنتی ہے؛ چنانچہ جب اپنی ہمشیرہ کے بچوں کو کوئی غلط کام کرتے ہوئے دیکھے تو ماموں پر لازم ہے کہ انہیں غلط کام سے روکے۔ جیسے کہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا : (جو شخص تم میں سے کسی برائی کو دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے روکے، اگر اس کی استطاعت نہ رکھے تو اپنی زبان سے روکے، اور اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو اپنے دل میں برا جانے، اور یہ کمزور ترین ایمان ہے۔) مسلم: (49) اس حدیث کی شرح میں امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس حدیث میں برائی دیکھنے پر حکم دیا اور فرمایا: (تو اسے روکے) تو اس حدیث میں حکم وجوب کے لیے ہے اور اس پر ساری امت کا اجماع ہے۔ دوسری جانب امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے واجب ہونے پر کتاب و سنت کے بہت زیادہ دلائل ہیں اور اس پر امت کا اجماع بھی ہے، نیز یہ دین میں شامل خیر خواہی بھی ہے۔" ختم شد " شرح صحيح مسلم " (2 / 22) دوم: کیا ماموں اپنی بہن کے بچوں کو سزا دے سکتا ہے؟ اس صورت میں ماموں کو یہ اجازت نہیں ہے کہ اپنی ہمشیرہ کے بچوں کو مارے؛ کیونکہ سزا دینے کا حق صرف والد کے پاس ہے، یا پھر وہ شخص اسے سزا دے سکتا ہے جسے بچے کے والد نے یا قاضی نے بچے کا سرپرست بنایا یا مقرر کیا ہے ۔ جیسے کہ "الموسوعة الفقهية الكويتية" (10 / 25) میں ہے کہ: "باپ اور ماں دونوں ہی اپنے بچوں کو باادب بنانے کے لیے سزا دے سکتے ہیں، اسی طرح وہ شخص بھی سزا دے سکتا ہے جو بچوں کا سرپرست ہے ۔۔۔ اسی طرح استاد بھی سزا دینے کی ذمہ داری سرپرست سے کشید کرے گا۔" ختم شد تاہم اگر والد کو ماموں کے سزا دینے کے عمل کا علم ہو اور والد اس پر خاموشی اختیار کرے تو یہ ماموں کے عمل پر رضا مندی شمار ہو گا، اور یہ ایسے ہی ہو گا جیسے والد نے ماموں کو بچوں کی تربیت اور مناسب طریقے سے سزا دینے کا اختیار دے دیا ہو۔ بعض خاندانوں میں ایسے ہوتا ہے کہ ماموں کو بہت مقام و مرتبہ حاصل ہوتا ہے جس کی وجہ سے اسے سزا دینے کا بھی اختیار ہوتا ہے، اور یہ بات لوگوں میں معروف بھی ہوتی ہے جس کی وجہ سے لوگ اس عمل پر کوئی منفی رد عمل بھی نہیں دیتے۔ تاہم اگر ماموں کے تادیبی عمل پر والد منفی رد عمل دے تو پھر ماموں نصیحت پر ہی اکتفا کرے، اسی طرح بچوں کے والدین کو بھی نصیحت کرے؛ کیونکہ اس وقت بچیوں کی تعلیم و تربیت انہی کی ذمہ داری ہے اور والدین ہی اپنی بچیوں کو شرعی طور پر حرام لباس سے منع کر سکتے ہیں اور سزا بھی دے سکتے ہیں۔

04/08/2023

4اولاد کو بد دعا دینے کا حکم
اگر بیٹا حق پر ہے اور والد غلطی پر ہے تو ان دونوں یعنی والدین کی دعا اس کے خلاف قبول نہیں ہو گی، اللہ تعالی والد کی بد دعا قبول نہیں فرمائے گا؛ اولاد جب والدین کے حقوق ادا نہ کرے یا ان کے حقوق میں کمی کرے تو یہ اولاد کی طرف سے والدین کی نافرمانی ہے۔ جبکہ والد اپنی اولاد کو کسی کام کا حکم دے یا کسی ایسے کام سے روکے جس میں کوئی فائدہ ہی نہیں ہے تو اولاد کیلیے اسے قبول کرنا لازمی نہیں؛ مثلاً باپ اپنے بیٹے کو بلا وجہ کہہ دیتا ہے کہ اپنی بیوی کو طلاق دو، تو ایسے میں بیٹے کیلیے ضروری نہیں ہے کہ باپ یا ماں کی بات مانے؛ کیونکہ بلا وجہ طلاق کے حکم کی عدولی والدین کی نافرمانی نہیں ہے، چاہے والدین اس پر بیٹے کو بد دعا ہی کیوں نہ دے دیں، تو اس سے بیٹا گناہ گار بھی نہیں ہو گا، اور نہ ہی ان شاء اللہ اس پر کوئی حرج ہو گا۔

04/08/2023

حدیث اور علوم حدیث

1کیا نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی احادیث پڑھنے پر بھی اجر ملتا ہے؟
علم وحی پڑھنے سے اجر ملتا ہے، علم سیکھنا اور قرآن کریم سے علم حاصل کرنا باعث اجر ہے، اسی طرح حدیث مبارکہ سے علم لینا بھی اجر عظیم کا ذریعہ ہے؛ حصول علم کے دو بڑے ذرائع ہیں: کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ؛ جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (تم میں سے بہتر وہ ہے جو علم سیکھے اور سکھائے۔) بخاری: (5027) قرآن کریم کی تلاوت کے حوالے سے متعدد احادیث ہیں جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (قرآن پڑھو؛ بیشک قرآن کریم قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کا سفارشی بن کر آئے گا) مسلم: (804) ایسے ہی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ بطحان -مدینہ میں ایک وادی کا نام-جائے اور بغیر کسی گناہ اور قطع رحمی کیے دو بہت بڑی بڑی اونٹنیاں لے کر آئے، تو انہوں نے کہا: اللہ کے رسول ہم میں سے ہر شخص یہ چاہتا ہے! تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی مسجد جائے اور کتاب اللہ سے دو آیات سیکھے تو یہ اس کے لیے دو عظیم اونٹنیوں سے بہتر ہے، تین آیات تین اونٹنیوں سے بہتر ہیں، چار آیات چار اونٹنیوں سے بہتر ہیں، جتنی آیات اتنی ہی اونٹنیوں سے بہتر ہیں۔) مسلم: (803) تو یہ حدیث قرآن کریم سیکھنے تلاوت کرنے کی فضیلت بیان کر رہی ہے۔ اسی طرح سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ: (جو شخص قرآن کریم کا ایک حرف پڑھے تو اس کے لیے ایک نیکی ہے، اور ہر نیکی کو دس گنا بڑھا کر دیا جائے گا۔) ترمذی: (2910) یہی کیفیت احادیث کی بھی ہے جب مومن احادیث پڑھے اور ان کا مطالعہ کرے تو اسے اجر عظیم ملے گا؛ کیونکہ یہ بھی حصول علم کا ذریعہ ہے، جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں: (جو کسی راستے پر اس لیے چلتا ہے کہ علم حاصل کرے تو اللہ تعالی اس کے لیے اس چلنے کی وجہ سے جنت کی طرف راستہ آسان کر دیتا ہے۔) ترمذی: (2646) تو اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وحی کا مطالعہ، احادیث یاد کرنا اور ایک دوسرے سے سننا اور سنانا جنت میں داخلے اور جہنم سے نجات کا باعث ہے، ایسے ہی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ بھی فرمان ہے کہ: (جس کے ساتھ اللہ تعالی خیر کا ارادہ فرما لے تو اسے دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے۔) متفق علیہ اور دین کی سمجھ قرآن کریم اور احادیث نبویہ کے ذریعے ہی ممکن ہے، لہذا احادیث نبویہ کی سمجھ حاصل کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے بندے کے ساتھ خیر کا ارادہ فرمایا ہے، بالکل اسی طرح قرآن کریم کو سمجھنا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالی نے اس کے ساتھ خیر کا ارادہ فرمایا ہے۔ اس بارے میں مزید بھی بہت سے دلائل الحمدللہ موجود ہیں

04/08/2023

2صحابہ کرام سے خلافت عمر میں نصف رمضان کے بعد قنوت وتر کی منقول دعا
قنوت وتر کے بارے میں متعدد احادیث وارد ہوئی ہیں، ان میں سے مشہور ترین مسند احمد: (1718)، ابو داود: (1425) ، ترمذی: (464) ، نسائی: (1745) ، اور ابن ماجہ: (1178) میں سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، آپ کہتے ہیں کہ: "مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قنوت وتر میں پڑھنے کے لیے کچھ کلمات سکھائے: اَللَّهُمَّ اهْدِنِي فِيمَنْ هَدَيْتَ ، وَعَافِنِي فِيمَنْ عَافَيْتَ ، وَتَوَلَّنِي فِيمَنْ تَوَلَّيْتَ ، وَبَارِكْ لِي فِيمَا أَعْطَيْتَ ، وَقِنِي شَرَّ مَا قَضَيْتَ ، فَإِنَّكَ تَقْضِي وَلا يُقْضَى عَلَيْكَ ، إِنَّهُ لَا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ ، تَبَارَكْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ ترجمہ: اے اللہ ! جن لوگوں کو تو نے ہدایت دی ہے مجھے بھی ان کے ساتھ ہدایت دے ۔ اور جن کو تو نے عافیت دی ہے مجھے بھی ان کے ساتھ عافیت دے اور جن کا تو محافظ ہے ان کے ساتھ میرا بھی محافظ بن ۔ اور جو نعمتیں تو نے مجھے عنایت کی ہیں ان میں مجھے برکت عطا فرما۔ اور جو فیصلے تو نے فرمائے ہیں ان کے شر سے مجھے محفوظ رکھ ۔ بلاشبہ فیصلے تو ہی کرتا ہے ، تیرے مقابلے میں کوئی فیصلہ نہیں ہوتا ۔ اور جس کا تو والی اور محافظ ہو وہ کہیں ذلیل نہیں ہو سکتا ۔ اور جس کا تو مخالف ہو وہ کبھی عزت نہیں پا سکتا ، بڑی برکتوں ( اور عظمتوں ) والا ہے تو اے ہمارے رب ! اور بہت بلند و بالا ہے ۔" یہ حدیث صحیح ہے، اسے امام نووی نے "خلاصة الأحكام" (1/455) میں، اسی طرح ابن حجر نے "موافقة الخبر الخبر" (1/333) ، میں ، ابن ملقن "البدر المنير" (3/630) میں، جبکہ علامہ البانی نے "صحیح سنن ابو داود" (1281) میں صحیح قرار دیا ہے۔ دوم: خلافت عمر رضی اللہ عنہ کے دوران صحابہ کرام عام طور پر قنوت وتر میں جو دعا پڑھا کرتے تھے اس دعا کو ابن خزیمہ نے صحیح ابن خزیمہ: (1100) میں عروہ بن زبیر کی سند سے بیان کیا ہے کہ عبد الرحمن بن عبد -جو کہ القاری کے لقب سے مشہور تھے اور آپ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں عبد اللہ بن ارقم رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیت المال کے نگران بھی تھے- کہ ایک دن سیدنا عمر رضی اللہ عنہ رمضان میں باہر نکلے تو ان کے ساتھ عبد الرحمن بن عبد بھی تھے آپ رضی اللہ عنہ نے مسجد میں چکر لگایا اس وقت لوگ مسجد میں مختلف ٹولیوں میں بکھرے ہوئے تھے، کوئی اکیلا جماعت کروا رہا تھا، تو کوئی چند لوگوں کو نماز پڑھا رہا تھا، یہ منظر دیکھ کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میرا خیال ہے کہ اگر ہم سب لوگوں کو ایک ہی قاری کی اقتدا میں جمع کر دیں تو یہ اچھا ہو گا۔ پھر اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے اس خیال کو عزم میں بدل دیا اور سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ ماہ رمضان میں انہیں قیام اللیل کروائیں۔ پھر ایک دن اور سیدنا عمر مسجد تشریف لائے اور لوگ ایک ہی قاری کی اقتدا میں قیام اللیل کر رہے تھے تو یہ منظر دیکھ کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "یہ اچھا طریقہ ہے، تاہم جس وقت تم آرام کرتے ہو وہ وقت تمہارے قیام کے وقت سے زیادہ افضل ہے، یعنی رات کے آخری حصے میں قیام کرو تو یہ تمہارے لیے افضل ہے۔" تو لوگ رات کے اول حصے میں قیام کرتے اور نصف رمضان میں کافروں کے خلاف بد دعا کرتے اور یہ الفاظ کہتے: اَللَّهُمَّ قَاتِلِ الْكَفَرَةَ الَّذِينَ يَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِكَ وَيُكَذِّبُونَ رُسُلَكَ ، وَلَا يُؤْمِنُونَ بِوَعْدِكَ ، وَخَالِفْ بَيْنَ كَلِمَتِهِمْ ، وَأَلْقِ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ ، وَأَلْقِ عَلَيْهِمْ رِجْزَكَ وَعَذَابَكَ ، إِلَهَ الْحَقِّ ترجمہ: یا اللہ! تیرے راستے سے روکنے والے ،تیرے رسولوں کی تکذیب کرنے والے اور تیرے وعدوں پر یقین نہ رکھنے والے کافروں کو تباہ و برباد فرما، یا اللہ! ان کے درمیان باہمی پھوٹ ڈال دے، ان کے دلوں میں رعب ڈال دے، ان پر اپنا عذاب اور پکڑ نازل فرما، اے الٰہ الحق! پھر نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر درود پڑھتے ، اور مسلمانوں کے لیے خیر و بھلائی کی دعائیں کرتے اور اہل ایمان کے لیے مغفرت طلب کرتے تھے۔ راوی کہتے ہیں: کافروں پر لعنت ،نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر درود ، مومن مرد و خواتین کے لیے مغفرت طلب کرنے کے بعد جب اپنی دعائیں بھی مانگ لیتے تو کہتے: اَللَّهُمَّ إِيَّاكَ نَعْبُد ُ، وَلَكَ نُصَلِّي وَنَسْجُدُ ، وَإِلَيْكَ نَسْعَى وَنَحْفِدُ ، وَنَرْجُو رَحْمَتَكَ رَبَّنَا ، وَنَخَافُ عَذَابَكَ الْجِدَّ ، إِنَّ عَذَابَكَ لِمَنْ عَادَيْتَ مُلْحِقٌ ترجمہ: یا اللہ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں، تیرے لیے ہی نماز پڑھتے ہیں اور سجدہ ریز ہوتے ہیں تیری جانب ہی کوشش کرتے ہیں اور تیرے حکم کی فوری تعمیل کرتے ہیں، اے پروردگار! ہم تیری رحمت کے امیدوار ہیں اور فوری چمٹنے والے عذاب سے ڈرتے ہیں، یقیناً تیرا عذاب تیرے دشمنوں کو اپنی لپیٹ میں لینے والا ہے۔ یہ الفاظ کہہ کر تکبیر کہتے ہوئے سجدے میں چلےجاتے" اس اثر کی سند صحیح ہے، اسے البانی رحمہ اللہ نے "قیام رمضان"(31) میں صحیح قرار دیا ہے۔ اسی طرح کا اثر سیدنا معاذ بن حارث ابو حلیمہ انصاری رضی اللہ عنہ جنہیں معاذ القاری کہا جاتا تھا اور ان کا شمار قراء صحابہ کرام میں ہوتا ہے؛ کیونکہ آپ انصاریوں کے امام اور قاری تھے، آپ کی شہادت واقعہ حرہ سن 63 ہجری میں ہوئی، جیسے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے "الإصابة" (6/110) میں تفصیلات بیان کی ہیں، کہتے ہیں: "انہوں نے ہی عمر رضی اللہ عنہ کو ماہ رمضان میں تروایح پڑھائی تھی" ختم شد سیدنا معاذ القاری رضی اللہ عنہ سے بھی ماہ رمضان میں قیام کے دوران اس سے ملتی جلتی دعا ماثور ہے، آپ سے یہ دعا ابو داود رحمہ اللہ نے "مسائل الإمام أحمد" (ص96) میں محمد بن سیرین کی سند سے نقل کی ہے، ابن سیرین کہتے ہیں: "معاذ القاری رضی اللہ عنہ رمضان المبارک کے قیام میں کہا کرتے تھے کہ: اَللَّهُمَّ عَذِّبِ الْكَفَرَةَ الَّذِينَ يَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِكَ وَيُكَذِّبُونَ رُسُلَكَ ، اللَّهُمَّ أَلْقِ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ ، وَخَالِفْ بَيْنَ كَلِمِهِمْ ، وَأَنْزِلْ عَلَيْهِمْ رِجْزَكَ وَعَذَابَكَ ، وَزِدْهُمْ رُعْبًا عَلَى رُعْبِهِمْ ، اللَّهُمَّ قَاتِلْ كَفَرَةَ أَهْلِ الْكِتَابِ الَّذِينَ يَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِكَ وَيُكَذِّبُونَ رُسُلَكَ ، وَاللَّهُمَّ أَلْقِ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ ، وَاللَّهُمَّ خَالِفْ بَيْنَ كَلِمِهِمْ ، وَأَنْزِلْ عَلَيْهِمْ رِجْزَكَ وَعَذَابَكَ ، وَزِدْهُمْ رُعْبًا عَلَى رُعْبِهِمْ ، اللَّهمَّ اغْفِرْ لِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ، وَالْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ ، وَأَصْلِحْ ذَاتَ بَيْنِهِمْ ، وَأَلِّفْ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ ، وَاجْعَلْ قُلُوبَهُمْ عَلَى قُلُوبِ أَخْيَارِهِمْ ، وَأَوْزِعْهُمْ أَنْ يَشْكُرُوا نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ، وَإِنْ يُوفُوا بِعَهْدِكَ الَّذِي عَاهَدْتَهُمْ عَلَيْهِ ، وَانْصُرْهُمْ عَلَى عَدُوِّكَ وَعَدُوِّهِمْ ، إِلَهَ الْحَقِّ ترجمہ: یا اللہ! تیرے راستے سے روکنے والے اور تیرے رسولوں کی تکذیب کرنے والے کافروں کو عذاب دے۔ یا اللہ! ان کے دلوں میں رعب ڈال دے، ان کے درمیان پھوٹ پیدا فرما دے، یا اللہ! ان پر تیری پکڑ اور عذاب نازل فرما، ان کے دلوں میں موجود ڈر میں مزید اضافہ فرما۔ یا اللہ! تیرے راستے سے روکنے والے اور تیرے رسولوں کی تکذیب کرنے والے اہل کتاب کو تباہ و برباد فرما، ان کے دلوں میں رعب ڈال دے، یا اللہ! ان کے اندر پھوٹ پیدا فرما، ان پر اپنی پکڑ اور عذاب نازل فرما، یا اللہ! ان کے دلوں میں موجود ڈر میں مزید اضافہ فرما۔ یا اللہ! مومن مرد و خواتین کی مغفرت فرما، مسلمان مرد و خواتین کی مغفرت فرما، باہمی چپقلش رکھنے والوں مسلمانوں کی آپس میں صلح فرما، ان کے دلوں میں الفت ڈال دے، ان کے دلوں کو بہترین مسلمانوں کے دلوں جیسا بنا دے، انہیں تیری طرف سے ملنے والی نعمتوں کا شکر کرنے کی توفیق عطا فرما، انہیں تیرے ساتھ کیے ہوئے عہد کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ! ان کی تیرے اور ان کے مشترکہ دشمنوں کے خلاف مدد فرما، یا الٰہ الحق" سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے بھی دعائے قنوت کے الفاظ کچھ اس طرح سے منقول ہیں: { اَللَّهُمَّ اغْفِرْ لَنَا ، وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ ، وَأَلِّفْ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ ، وَأَصْلِحْ ذَاتَ بَيْنِهِمْ ، وَانْصُرْهُمْ عَلَى عَدُوِّكَ وَعَدُوِّهِمْ ، اللَّهُمَّ الْعَنْ كَفَرَةَ أَهْلِ الْكِتَابِ الَّذِينَ يَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِكَ ، وَيُكُذِّبُونَ رُسُلَكَ ، وَيُقَاتِلُونَ أَوْلِيَاءَكَ اللَّهُمَّ خَالِفْ بَيْنَ كَلِمَتِهِمَ ، وَزَلْزِلْ أَقْدَامَهُمْ ، وَأَنْزِلْ بِهِمْ بَأْسَكَ الَّذِى لاَ تَرُدُّهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ . بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ؛ اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْتَعِينُكَ وَنَسْتَغْفِرُكَ وَنُثْنِى عَلَيْكَ وَلاَ نَكْفُرُكَ ، وَنَخْلَعُ وَنَتْرُكُ مَنْ يَفْجُرُكَ . بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ اللَّهُمَّ إِيَّاكَ نَعْبُدُ ، وَلَكَ نُصَلِّى وَنَسْجُدُ ، وَلَكَ نَسْعَى وَنَحْفِدُ ، نَخْشَى عَذَابَكَ الْجَدَّ ، وَنَرْجُو رَحْمَتَكَ ، إِنَّ عَذَابَكَ بِالْكَافِرِينَ مُلْحَقٌ } ترجمہ: یا اللہ! ہماری مغفرت فرما، مومن مرد و خواتین کی مغفرت فرما، مسلمان مرد و خواتین کی مغفرت فرما، ان کے دلوں میں الفت پیدا فرما، باہمی چپقلش رکھنے والوں کی آپس میں صلح فرما، یا اللہ! مسلمانوں کی ان کے اور تیرے دشمنوں کے خلاف مدد فرما، یا اللہ! تیرے راستے سے روکنے والے اور رسولوں کی تکذیب کرنے والے اور تیرے اولیاء سے جنگیں کرنے والے اہل کتاب پر اپنی لعنت برسا، یا اللہ! ان کے درمیان پھوٹ ڈال دے، ان کے قدموں کو ڈگمگا دے، ان پر تیری ایسی پکڑ نازل فرما کہ تو مجرموں سے اسے کبھی نہ ہٹائے۔ اللہ کے نام سے دعا مانگتا ہوں جو کہ بہت مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے، یا اللہ! یقیناً ہم تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں اور تجھ ہی سے بخشش طلب کرتے ہیں، تیری ہی تعریف بیان کرتے ہیں، ناشکری نہیں کرتے، جو بھی تیرا نافرمان ہو اسے لا تعلقی کرتے ہیں اور اسے چھوڑ دیتے ہیں۔ اللہ کے نام سے دعا مانگتا ہوں جو کہ بہت مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے، یا اللہ! یقیناً ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں، تیرے لیے ہی نماز پڑھتے ہیں اور سجدہ ریز ہوتے ہیں، تیری جانب ہی کوشش کرتے ہیں اور تیرے حکم کی فوری تعمیل کرتے ہیں، ہم فوری چمٹنے والے عذاب سے ڈرتے ہیں اور تیری رحمت کے امیدوار ہیں ، یقیناً تیرا عذاب تیرے دشمنوں کو اپنی لپیٹ میں لینے والا ہے۔" یہ دعا مصنف عبد الرزاق :(4969) ، مصنف ابن ابی شیبہ: (7027) "سنن کبری" از بیہقی: (2/210) میں بیان ہوا ہے ، نیز اس اثر کو امام بیہقی نے روایت کرنے کے بعد صحیح بھی کہا ہے، ایسے ہی ابن ملقن نے "البدر المنير" (4/371) میں بھی اس کو صحیح قرار دیا ہے۔ تاہم اگر کوئی نمازی صحابہ کرام سے منقول مذکورہ دعائیں اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت شدہ تمام ادعیہ قنوت وتر میں پڑھے تو یہ اچھا عمل ہو گا، نیز ان تمام دعاؤں کو اکٹھا کرنے سے لوگوں پر بھی کوئی تنگی نہیں ہو گی، اور دعا زیادہ لمبی بھی نہیں ہو گی۔ نیز اگر ان دعاؤں کو وقتاً فوقتا پڑھے تو یہ بھی اچھا ہو گا، ان شاء اللہ۔

04/08/2023

3سات بار ( اللھم اجرنی من النار ) پڑھنے کی حدیث
یہ حديث امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے مسنداحمد ( 17362 ) میں اورابو داود رحمہ اللہ تعالی نے سنن ابوداود ( 5079 ) میں روایت کی ہے جس الفاظ یہ ہیں :

04/08/2023

( اذا صلیت الصبح فقل قبل ان تکلم احدا من الناس " اللھم اجرنی من النار " سبع مرات فانک ان مت من یومک ذالک کتب اللہ لک جوارا من النار ، واذا صلیت المغرب فقل قبل ان تکلم احدمن الناس لانس اسئلک الجنۃ ، اللھم اجرنی من النار ، سبع مرات فانک ان مت من لیلتک کتب اللہ ‏عزوجل لک جوارا من النار ) ۔ ( جب آپ فجرکی نماز سے فارغ ہوں تو کسی سے بات کرنے سے قبل سات بار" اللھم اجرنی من النار" اے اللہ مجھے آگ سے بچا کہیں تواگر آپ کواس دن موت آجاۓ تواللہ تعالی تمہارے لیے آگ سے بچاؤ لکھ دے گا ، اوراگرآپ مغرب کی نماز پڑھ کرکسی سے بات کرنے سے قبل سات بار اللھم انی اسئلک الجنۃ اے اللہ میں تجھ سے جنت کا سوال کرتا ہوں ، اورسات بااللھم اجرنی من النار اے اللہ مجھے آگ سے بچا تواگرآپ اس رات فوت ہوجائيں تواللہ تعالی آگ سے بچاؤ لکھ دے گا ) تواس حدیث میں دوچيزیں ہیں : 1- یہ کلمات عشاء کے بعد نہیں کہیں جائيں گے جیسا کہ سوال میں ذکر کیا گيا ہے ۔ 2 – یہ حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح ثابت نہيں ، دیکھیں السلسلۃ الضعیفۃ للالبانی رحمہ اللہ حدیث نمبر ( 1624 ) ۔ تواس بنا پرنہ تویہ دعا نماز فجر اورنہ ہی نماز مغرب کے بعدکہنی واجب اور نہ ہی مستحب ہے ۔ 3 – انس رضي اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے تین باراللہ تعالی سے جنت کا سوال کیا توجنت یہ کہتی ہے اے اللہ اسے جنت میں داخل کردے ، اورجس نے تین بارجھنم کی آگ سے پناہ طلب کی توآگ کہتی ہے اے اللہ اسے آگ سے پناہ دے دے ۔ سنن ترمذي حدیث نمبر ( 2572 ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 4340 ) اوریہ حدیث صحیح ہے اسے علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح الجامع ( 6275 ) میں صحیح کہا ہے ۔ لیکن یہ کسی وقت اورنماز کے ساتھ مقید نہیں بلکہ کسی بھی وقت کہا جاسکتا ہے ، تومومن کے لیے یہ مستحب ہے کہ وہ اللہ تعالی سے جنت کا سوال اورجھنم سے بچاؤ طلب کرتا رہے اور اس میں کسی بھی وقت کی تعیین نہ کرے نہ تونمازاور نہ ہی اوقات میں بلکہ کسی بھی وقت مانگ سکتا ہے
4كيا فطرانہ كے بغير رمضان كے روزے معلق رہتے ہيں
اس سلسلہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ايك حديث وارد ہے، ليكن وہ ضعيف ہے، اسے امام سيوطى رحمہ اللہ نے " الجامع الصغير " ميں ابن شاہين كى ترغيب كى طرف منسوب كيا ہے، اور ضياء نے جرير بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہ سے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: " فطرانہ كے بغير رمضان المبارك كے روزے اللہ كى طرف نہيں اٹھائے جاتے، بلكہ وہ زمين و آسمان كے مابين معلق رہتے ہيں " سيوطى رحمہ اللہ نے اسے ضعيف قرار ديا ہے، اور مناوى رحمہ اللہ نے " فيض القدير " ميں ا س كے ضعف كا سبب بيان كرتے ہوئے كہا ہے: اسے ابن الجوزى نے " الواھيات " ميں نقل كيا اور كہا ہے: يہ صحيح نہيں، اس ميں محمد بن عبيد البصرى مجھول ہے. اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے بھى " السلسلۃ الاحاديث الضعيفۃ " حديث نمبر ( 43 ) ميں اسے ضعيف قرار دينے كے بعد كہا ہے: پھر اگر يہ حديث صحيح بھى ہو تو اس كا ظاہر اس پر دلالت كريگا كہ فطرانہ كى ادائيگى تك رمضان المبارك كے روزوں كى قبوليت موقوف رہےگى، تو جو شخص فطرانہ ادا نہيں كريگا، اس كے روزے قبول نہيں ہونگے، اور ميرے علم ميں تو نہيں كہ كسى بھى اہل علم نے ايسا كہا ہو..... اور يہ حديث صحيح نہيں " انتہى. مختصرا. اور جب حديث ہى صحيح نہيں تو پھر كوئى بھى يہ نہيں كہہ سكتا كہ فطرانہ كے بغير رمضان كے روزے قبول نہيں ہوتے، كيونكہ ا سكا علم تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے علاوہ كسى اور سے نہيں ہو سكتا. اور سنن ابو داود ميں ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے حديث ميں ثابت ہے كہ: " نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے لغو اور بےہودہ باتوں سے روزہ دار كى پاكى، اور مسكينوں كى غذا كے ليے فطرانہ فرض كيا " سنن ابو داود حديث نمبر ( 1609 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن ابو داود ميں اسے حسن قرار ديا ہے. تو يہ حديث فطرانہ كے فرض ہونے كى حكمت بھى بيان كر رہى ہے كہ روزے كى حالت ميں جو كمى و كوتاہى ہوجاتى ہے وہ فطرانہ پورى كرتا ہے، اور حديث ميں يہ بيان نہيں ہوا كہ فطرانہ كے بغير روزہ قبول ہى نہيں ہوتا.

04/08/2023

سیرت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم

1ہم دین اسلام کی عمر ابتدائے ہجرت سے کیوں شمار کرتے ہیں، ابتدائے وحی اور دعوت سے کیوں نہیں کرتے؟
یہ بات ٹھیک ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت سے پہلے مکہ میں جو 13 سال گزارے ، جن میں آپ نے اللہ تعالی کی طرف لوگوں کو بلایا، تکالیف برداشت کیں، جاہلوں کی باتوں پر صبر کیا، یہ بھی اسلامی تاریخ میں شامل ہیں، بلکہ یہ اسلام کی عمر کے بہت ہی اہم سال ہیں؛ ان ایام میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا پورا بھروسا اور توکل بہت اہمیت کا حامل تھا، آپ نے اللہ کی راہ میں بہت تکلیفیں برداشت کیں۔ اس بات میں کوئی بھی عقلمند شک نہیں کرتا، اور نہ ہی کوئی اس کا انکار کر سکتا ہے، چاہے کوئی مسلمان ہو یا غیر مسلم کسی میں اتنی ہمت نہیں ہے۔ لیکن وہ بنیادی اور مرکزی نقطہ جس کی وجہ سے لوگوں نے جنتری اور کیلنڈر وضع کرتے ہوئے یا کسی بھی واقعے کا سال ذکر کرتے ہوئے ہجرت کو بنیاد بنایا ہے وہ یہ ہے کہ صحابہ کرام عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں اس بات پر متفق ہو گئے کہ سالِ ہجرت کو اس کیلیے بنیاد بنایا جائے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہجرت سے ہی اسلامی مملکت کا قیام عمل میں آیا، یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کر کے مدینہ پہنچے تو لوگ آپ کے اردگرد جمع ہو گئے، انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر طرح سے حفاظت کی ذمہ داری اٹھائی، آپ نے وہاں پر مسجد بنائی، اور دیگر امور سر انجام دیے، یعنی اسلامی مملکت کے جغرافیائی، سماجی، عسکر ی اور سیاسی آثار نظر آنا شروع ہو گئے، لیکن ہجرت سے پہلے مسلمانوں کا کوئی ملک نہیں تھا اور نہ ہی ان کے پاس جامع نظامِ حکومت تھا۔ صحابہ کرام سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں 16 یا 17 یا 18 ہجری میں اس بات پر متفق ہو گئے تھے کہ اسلامی تاریخ کا آغاز ہجرت کے سال سے کیا جائے، اس کی وجہ یہ بنی کہ امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شخص نے دعوی دائر کیا اور اس کے آخر میں تھا کہ : "اس کی ادائیگی کا وقت شعبان ہے" اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے استفسار کیا: اس شعبان سے مراد کون سا شعبان ہے؟ اس سال کا شعبان یا گزشتہ سال کا شعبان ؟ یا آئندہ سال کا شعبان؟ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام کو جمع کیا اور ان سے تاریخ مقرر کرنے کے بارے میں مشورہ لیا تا کہ قرضوں کی ادائیگی کا وقت جاننے سمیت دیگر امور میں مدد ملے ۔ تو کچھ نے مشورہ دیا کہ فارسیوں کی تاریخ کو معتمد تاریخ بنا لیں، لیکن یہ مشورہ عمر رضی اللہ عنہ کو پسند نہیں آیا۔ پھر کسی نے کہا کہ رومیوں کی تاریخ معتمد بنا لیں، لیکن آپ کو یہ بھی پسند نہیں آیا۔ کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے اسلامی سال کی ابتدا کرنے کا مشورہ بھی دیا، کسی نے بعثت تو کسی نے ہجرت کا ذکر کیا جبکہ کچھ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے اسلامی سال کی ابتدا کرنے کا مشورہ دیا۔ تو عمر رضی اللہ عنہ کا میلان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کو معیار بنانے کی جانب تھا؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کا سال مشہور و معروف بھی تھا اور دیگر صحابہ کرام بھی اس پر متفق ہو گئے۔ مطلب یہ ہے کہ: صحابہ کرام نے اسلام سال کی ابتدا کیلیے ہجرت کے سال کا انتخاب کیا اور اس کا پہلا مہینہ محرم قرار پایا، جمہور کا موقف بھی یہی ہے، اور لوگ اپنے معاملات بھی اسی تاریخ کی بنیاد پر طے کرتے ہیں"انتہی "البداية والنهاية" (3 /251-253) امام بخاری رحمہ اللہ صحیح بخاری (3934)میں بیان کرتے ہیں کہ : سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: "اسلامی سال کی ابتدا صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے نہیں کی اور نہ ہی آپ کی وفات سے، بلکہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ آمد پر اسلامی سال کی بنیاد رکھی" حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں: "کچھ مؤلفین نے ہجرت کے سال سے اسلامی کیلنڈر کی ابتدا کرنے کی اچھی مناسبت پیش کی ہے: ان کا کہنا ہے کہ: جن امور کر بنیاد بنا کر اسلامی کیلنڈر کی ابتدا کی جا سکتی تھی وہ چار تھے: آپ کی ولادت، آپ کی بعثت ، ہجرت اور وفات، تو صحابہ کرام کے ہاں ہجرت سے اسلامی کیلنڈر کی ابتدا زیادہ مقبول ہوئی؛ کیونکہ ولادت اور بعثت دونوں کے سال کی تعیین میں اختلاف ہو سکتا تھا، جبکہ وفات سے کنارہ کشی اس لیے اختیار کی کہ اس کے ذکر سے افسردگی اور غم تازہ ہو جائے گا، تو پھر باقی صرف ایک ہی اختیار رہ گیا کہ ہجرت سے اسلامی سال کی ابتدا کی جائے۔ نیز ربیع الاول کی بجائے محرم سے اسلامی سال کی ابتدا اس لیے کی کہ ہجرت کرنے کا عزم محرم میں ہوا تھا؛ کیونکہ بیعت عقبہ ثانیہ ذو الحجہ میں ہوئی تھی اور یہی بیعت ہجرت کا پیش خیمہ بنی، چنانچہ بیعت اور ہجرت کا پختہ ارادہ کرنے کے بعد سب سے پہلا چاند جو طلوع ہوا وہ محرم کا تھا، اس لیے ماہِ محرم کو اسلامی سال کا پہلا مہینہ قرار دیا گیا، مجھے محرم سے ابتدا کرنے کی سب سے مضبوط اور اچھی توجیہ یہی ملی ہے۔ مستدرک حاکم میں سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ: "عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو جمع کیا اور ان سے تاریخ کے پہلے دن کے متعلق استفسار کیا کہ کس دن سے اسلامی سال کی ابتدا کی جائی، اس پر علی رضی اللہ عنہ کی رائے تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل شرک سے کنارہ کشی اختیار کر کے ہجرت کی لہذا اسی دن سے ابتدا ہو، تو یہ بات عمر رضی اللہ عنہ کو اچھی لگی اور اسی کو نافذ العمل قرار دے دیا گیا" انتہی لہذا اسلام کی عمر ہجرت سے شروع ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی سال کی تقویم اور جنتری کی ابتدا ہجرت سے ہے، کہ لوگوں نے اپنے معاملات اور دیگر حالات و واقعات جاننے کیلیےایسا کیا تاکہ ایک جامع اور متفقہ نظام قائم ہو اور معاہدوں کیلیے مقررہ اوقات جاننے میں آسانی رہے، کہیں وفد ارسال کرنے میں بھی وقت کی پابندی ہو۔ چنانچہ اس بات پر عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں سب کا اتفاق ہو گیا تھا اور آج تک وہ اتفاق قائم ہے۔ اس واقعہ ہجرت کو ابتدائے تاریخ مقرر کرنے سے مقصددولت اسلامی کے وجود اور جنم کی تاریخ منضبط کرنا بھی تھا۔ جبکہ اسلام کب سے شروع ہوا ؟تو یہ بات لوگوں میں بتلانے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہجری سال سے پہلے بھی اسلام موجود تھا؛ کیونکہ اسلام کا معنی اور مفہوم اس سے وسیع ہے؛ اس لیے کہ اسلام سے مراد وہ دین ہے جو اللہ تعالی نے اپنے بندوں کیلیے پسند فرمایا، جس کیلیے اپنے رسولوں اور انبیائے کرام کو مبعوث فرمایا، اور تاریخ بیان کرتے ہوئے ہماری یہ مراد ہوتی ہی نہیں ہے۔ نیز ہم نہیں سمجھتے کہ کوئی اس بات کا تصور رکھے کہ اسلام کی حقیقی ابتدا ہجرت سے ہوئی ہےاور یہ سمجھے کہ مکہ میں ہجرت سے پہلے جتنے بھی سال گزارے ہیں انہیں اسلام کی عمر میں شامل ہی نہ کرے ، ایسی بات کوئی بھی نہیں کرتا۔

04/08/2023

2ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ شادی کے وقت عمر کی تحقیق
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ نکاح چھ سال کی عمر میں اور رخصتی نو سال کی عمر میں ہوئی ہر دو واقعات کے وقت عمر کا تعین علمائے کرام کے اجتہاد سے نہیں ہوا ، اس لیے اس کے صحیح اور غلط ہونے کی نوبت ہی نہیں آتی، بلکہ یہ ایک تاریخی امر ہے جو کہ ایسے ٹھوس شواہد اور دلائل سے ثابت شدہ ہے جن کی وجہ سے مذکورہ تاریخوں کو درست مانے بغیر کوئی چارہ نہیں ، جیسے کہ درج ذیل ہے: 1- مذکورہ عمر کی تعیین جن کی اس عمر میں شادی ہوئی ہے یعنی خود عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہی منقول ہے، کسی اور نے یہ عمر بیان نہیں کی، کسی مؤرخ یا محدث نے ان کی عمر متعین نہیں کی، چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنہا اپنی گفتگو میں کہتی ہیں: "نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے نکاح کیا تو میری عمر اس وقت چھ سال تھی، پھر جس وقت ہم مدینہ آئے اور بنی حارث بن خزرج کے ہاں ٹھہرے، تو مجھے وہاں بخار ہو گیا اور اس کی وجہ سے میرے بال جھڑ گئے پھر جب کندھے تک لمبے ہوئے تو میری والدہ ام رومان میرے پاس آئیں میں اس وقت اپنی سہیلیوں کیساتھ جھولے لے رہی تھی، میری والدہ نے مجھے زور دار آواز دے کر بلایا میں ان کے پاس آئی مجھے نہیں معلوم انہوں نے مجھے کس لیے بلایا تھا، میری والدہ نے میرا ہاتھ پکڑا اور گھر کے دروازے پر پہنچ گئیں، میرا سانس اس وقت پھولا ہوا تھا، جب میرا سانس آپس میں ملا تو پانی سے میرا سر اور چہرہ دھویا، پھر مجھے ایک گھر میں لے گئیں، تو وہاں انصار کی کچھ خواتین پہلے سے ہی موجود تھی، انہوں نے میرے بارے میں کلمات خیر کہے، اور میری والدہ نے مجھے ان کے سپرد کر دیا، ان خواتین نے میرا بناؤ سنگھار کر دیا، مجھے کسی بات کا علم ہی نہیں تھا کہ چاشت کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور میری والدہ نے مجھے آپ کے سپرد کر دیا، اور میری عمر اس وقت نو سال تھی" بخاری: (3894) مسلم: (1422) 2- یہ روایت عائشہ رضی اللہ عنہا سے قرآن مجید کے بعد صحیح ترین کتب یعنی صحیح بخاری اور مسلم میں بیان ہوئی ہے۔ 3- نیز یہ روایت عائشہ رضی اللہ عنہا سے متعدد اسانید سے مروی ہے، لیکن کچھ جاہل لوگ اس روایت کی ایک ہی سند سمجھتے ہیں، چنانچہ ان کی تفصیلات یہ ہیں: - مشہور ترین سند ہشام بن عروہ بن زبیر اپنے والد عروہ سے اور وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کرتے ہیں، یہ روایت صحیح ترین روایت ہے؛ کیونکہ عروہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے ہیں اس لیے انہیں اپنی خالہ کے بارے میں صحیح ترین معلومات تھیں۔ - ایک سند زہری سے ہے جس میں وہ عروہ بن زبیر کے واسطے سے عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں، یہ روایت صحیح مسلم : (1422) میں ہے۔ - ایک سند اعمش سے ہے وہ ابراہیم کے واسطے سے اسود سے بیان کرتے ہیں اور وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح چھ سال کی عمر میں کیا اور رخصتی نو سال کی عمر میں ہوئی، اور جب آپ فوت ہوئے تو ان کی عمر اٹھارہ سال تھی" مسلم: (1422) - ایک سند میں محمد بن عمرو ، یحیی بن عبد الرحمن بن حاطب کے واسطے سے عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کرتے ہیں یہ سند ابو داود: (4937) میں ہے۔ - فضیلۃ الشیخ ابو اسحاق حوینی حفظہ اللہ نے عروہ بن زبیر کی متابعت کرنے والے راویوں کے نام ذکر کیے ہیں جن میں اسود بن یزید، قاسم بن عبد الرحمن، قاسم بن محمد بن ابو بکر، عمرۃ بنت عبد الرحمن اور یحیی بن عبد الرحمن بن حاطب شامل ہیں۔ اسی طرح انہوں نے ہشام بن عروہ کی متابعت کرنے والے راویوں کو بھی جمع کیا ہے، جن میں ابن شہاب زہری، ابو حمزہ میمون -جو کہ عروہ کے غلام ہیں -شامل ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے یہ واضح کرنے کیلیے کہ ہشام بن عروہ نے یہ روایت مدینہ میں بھی روایت کی ہے اہل مدینہ کے راوی ذکر کیے ، جن میں ابو زناد عبد اللہ بن ذکوان، انہی کے بیٹے عبد الرحمن بن ابو زناد، عبد اللہ بن محمد بن یحیی بن عروہ شامل ہیں۔ اہل مکہ میں سے یہ روایت ہشام بن عروہ سے سفیان بن عیینہ بیان کرتے ہیں۔ اہل الری میں سے جریر بن عبد الحمید ضبی ہشام بن عروہ بیان سے کرتے ہیں۔ اہل بصرہ میں سے حماد بن سلمہ، حماد بن زید اور وہیب بن خالد سمیت دیگر راوی ہشام بن عروہ سے بیان کرتے ہیں۔ راویوں کے اعداد و شمار پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جاہلوں کے اس شبہ کی تردید ہو سکے کہ ہشام بن عروہ اکیلے ہی اس روایت کے راوی ہیں، چنانچہ بفرض محال یہ مان بھی لیا جائے کہ ہشام کا آخری عمر میں حافظہ بالکل کمزور ہو گیا تھا تو ان کے حافظہ کمزور ہونے سے اس روایت کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا، اگرچہ ہشام بن عروہ کے بارے میں یہ کہنا ہی غلط ہے کہ ان حافظہ بالکل ختم ہو گیا تھا، یہ بات ابو الحسن قطان نے " بيان الوهم والإيهام " میں بیان کی ہے جو کہ سراسر غلط ہے: اس بارے میں ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "ہشام بن عروہ بلند پایہ صاحب علم، حجہ اور امام ہیں، بڑھاپے میں قوت حافظہ معمولی سے فرق کیساتھ کم ہو گئی تھی، چنانچہ ابو الحسن بن قطان کی بات معتبر نہیں ہوگی، ان کا کہنا ہے کہ : "ہشام بن عروہ اور سہیل بن ابو صالح دونوں کا حافظہ بالکل ختم ہو گیا تھا" یہ بات ٹھیک ہے کہ معمولی سا فرق آگیا تھا، لیکن پھر بھی ان کا حافظہ ایسے ہی تھا جیسے جوانی میں تھا، اگر بڑی عمر میں کچھ باتیں انہیں بھول گئیں تھی یا کچھ باتوں کے بارے میں وہم ہونے لگا تھا تو کیا ہوا؟! کیا وہ بھولنے سے معصوم تھے؟ انہوں نے اپنی آخری عمر میں عراق آ کر علم کی خوب نشر و اشاعت کی، اس دوران معمولی مقدار میں ان سے کچھ احادیث صحیح طرح بیان نہ ہوئیں، ایسا ہو جانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے؛ کیونکہ ایسا تو مالک، شعبہ اور وکیع جیسے بڑے قد آور معتمد علما کیساتھ بھی ہوا ہے، اس لیے آپ ہشام کے بارے خبطی باتوں پر بالکل بھی دھیان نہ دیں، اور معتمد راویوں کیساتھ ضعیف اور کمزور حافظے والے راویوں کو مت ملائیں، اس لیے ہشام بن عروہ شیخ الاسلام ہیں، لیکن ابن قطان کی گفتگو پر اللہ تعالی ہی ہمیں صبر سے نوازے، اسی طرح عبد الرحمن خراش کی بات پر کہ: امام مالک رحمہ اللہ ہشام بن عروہ کو پسند نہیں کرتے تھے، کیونکہ امام مالک رحمہ اللہ ان احادیث کی وجہ سے ہشام بن عروہ کو پسند نہیں کرتے تھے جو انہوں نے اہل عراق کو بیان کی تھیں" انتہی " ميزان الاعتدال " (4/301-302) 4- اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عائشہ رضی اللہ عنہا سے نو سال کی عمر میں شادی کا واقعہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ بھی دیگر معاصرین ِ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا ہے: - امام احمد نے مسند احمد: (6/211) میں محمد بن بشر سے روایت کیا ہے کہ وہ محمد بن عمرو سے بیان کرتے ہیں کہ انہیں ابو سلمہ اور یحیی دونوں نے بتلایا کہ: "جب خدیجہ رضی اللہ عنہا فوت ہو گئیں تو خولہ بنت حکیم یعنی عثمان بن مظعون کی اہلیہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہا: اللہ کے رسول! آپ شادی نہیں کرو گے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کس سے کروں؟ ) تو انہوں نے کہا آپ چاہیں تو کسی کنواری سے یا کسی بیوہ سے کر لیں، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کنواری کون ہے؟) اس پر انہوں نے کہا: آپ کے ہاں سب سے عزیز ترین شخصیت کی بیٹی عائشہ بنت ابو بکر۔۔۔۔" اس کے بعد انہوں نے شادی کی دیگر تفصیلات بھی ذکر کیں، اور اس میں یہ واضح لفظوں میں ہے کہ اس وقت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر چھ سال تھی پھر جب رخصتی ہوئی تو ان کی عمر نو سال تھی۔ 5- یہی بات جو عائشہ رضی اللہ عنہا اور دیگر راوی آپ سے بیان کر رہے ہیں اس پر تمام تاریخی مصادر متفق ہیں چنانچہ جس نے بھی عائشہ رضی اللہ عنہا کے حالات زندگی بیان کیے ہیں کسی نے بھی اس سے متصادم بات ذکر نہیں کی، کیونکہ یہ معاملہ ہی ایسا ہے کہ ذاتی قیاس آرائی اور اجتہاد کی اس میں کوئی گنجائش ہی نہیں ہے، کیونکہ کوئی اپنی آپ بیتی سے بیان کرے تو پھر اس کے بارے میں کسی اجتہاد وغیرہ کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ 6- تمام تر تاریخی مصادر اس بات پر بھی متفق ہیں کہ عائشہ رضی اللہ عنہا اسلام کا اعلان ہونے کے بعد تقریباً چار یا پانچ سال بعد پیدا ہوئی ہیں۔ اس بارے میں امام بیہقی رحمہ اللہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی بات: "میں نے جب سے ہوش سنبھالی ہے اس وقت سے اپنے والدین کو دین پر کار بند دیکھا ہے" پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: "عائشہ رضی اللہ عنہا کی پیدائش اسلام کی حالت میں ہوئی ہے، کیونکہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے والد ابتدائے اسلام میں ہی مسلمان ہو گئے تھے، اور یہ بات اسود بن یزید کے واسطے سے عائشہ رضی اللہ عنہا سے ثابت ہے کہ ان کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ نکاح چھ سال کی عمر میں ہوا اور رخصتی نو سال کی عمر میں ہوئی، جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو اس وقت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر اٹھارہ سال تھی، تاہم اسما بنت ابی بکر دور جاہلیت میں پیدا ہوئی تھیں، پھر والد کے اسلام قبول کرنے کے ساتھ ہی مسلمان ہو گئی تھیں۔۔۔نیز ابو عبد اللہ بن مندہ نے ابن ابی زناد کی یہ بات نقل کی ہے کہ اسما بنت ابی بکر عائشہ رضی اللہ عنہا سے دس سال بڑی تھیں، اور اسما رضی اللہ عنہا کی والدہ کچھ دیر کے بعد مسلمان ہوگئی تھیں، اس کیلیے انہوں نے اسما رضی اللہ عنہا کی یہ بات بھی نقل کی کہ: "جس وقت میری والدہ مشرک تھیں تو میرے پاس آئیں " یہاں پر یہ دیکھنا لازمی ہے کہ اسما کی والدہ کا نام قتیلہ تھا جو کہ بنی مالک بن حسل کے خاندان سے تھیں، وہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی والدہ نہیں تھیں؛ کیونکہ اسما اپنے والد کیساتھ مسلمان ہو چکی تھیں، جبکہ عبد الرحمن بن ابو بکر رضی اللہ عنہ اپنے والدین کے اسلام لانے کے وقت بالغ تھے، چنانچہ عبد الرحمن نے کافی مدت کے بعد اسلام قبول کیا، اور آپ ابو بکر رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے سب سے بڑے تھے" انتہی مختصراً " السنن الكبرى " (6/203) ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "عائشہ رضی اللہ عنہا کی پیدائش عہد اسلام میں ہوئی ہے، آپ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے آٹھ سال چھوٹی تھیں، آپ اکثر کہا کرتی تھیں: "جب سے میں نے حوش سنبھالی ہے میں نے انہیں دین پر قائم ہی دیکھا ہے" " سير أعلام النبلاء " (2/139) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں: "عائشہ رضی اللہ عنہا کی پیدائش بعثت سے چار یا پانچ سال بعد ہوئی" انتہی " الإصابة " (8/16) چنانچہ اس بنا پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہجرت کے سال عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر آٹھ یا نو سال تھی، اور یہی بات عائشہ رضی اللہ عنہا کی سابقہ آپ بیتی سے بھی مکمل متفق ہے۔ 7- تمام تاریخ مصادر بھی اس بات پر متفق ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر اس وقت اٹھارہ سال تھی، لہذا اس بنا پر بھی عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر ابتدائے ہجرت کے وقت میں نو سال ہی بنتی ہے۔ 8- بالکل اسی طرح سیر و تاریخ اور تراجم کی کتب بھی یہی بیان کرتی ہیں کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر وفات کے وقت 63 سال تھی، چونکہ آپ کی وفات 57 ہجری میں ہوئی ہے اس لیے ہجرت سے پہلے آپ کی عمر 6 سال ہوئی، اور جب عرب کی عام عادت کے مطابق کسر توڑنے یا پوری کرنے کو سامنے رکھا جائے کہ وہ ابتدائی اور آخری دونوں سالوں کی کسر شامل /خارج کرتے تھے تو اس طرح ان کی عمر ہجرت کے سال 8 سال بنتی ہے، چنانچہ ہجرت کے آٹھ مہینے کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے شادی کی تو اس وقت آپ کی عمر 9 سال تھی۔ 9- مندرجہ بالا عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر اسما بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا اور ان کی عمر کے درمیان فرق سے بھی مطابقت رکھتی ہے، چنانچہ ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: "اسما عائشہ رضی اللہ عنہا سے دس سال سے کچھ بڑی تھیں" انتہی " سير أعلام النبلاء " (2/188) چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی پیدائش بعثت سے چار یا پانچ سال بعد ہوئی اور ابو نعیم رحمہ للہ کے مطابق "معجم الصحابہ" میں ہے کہ: "اسما رضی اللہ عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے دس سال پہلے پیدا ہوئیں" انتہی اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عائشہ اور اسما کے مابین تقریباً 14 یا 15 سال کا فرق تھا اور یہی مطلب ذہبی رحمہ اللہ کی سابقہ گفتگو کا بنتا ہے کہ: " اسما عائشہ رضی اللہ عنہا سے دس سال سے کچھ بڑی تھیں " 10- ہم جو بھی اعداد و شمار سیرت، تاریخ اور تراجم کی کتب سے ذکر کر رہے ہیں یہ ہم صحیح سند کیساتھ ثابت ہونے پر ہی کر رہے ہیں ، چنانچہ جو بھی بات ہمیں سند کے بغیر ملی ہم اسے ذکر نہیں کرتے۔ ہمارا اصل اعتماد صحیح سند کیساتھ ثابت شدہ چیزوں پر ہے، تاہم ان حوالہ جات میں بھی وہی کچھ مذکور ہے جو ہم نے جواب کے شروع میں ہی روزِ روشن کی طرح عیاں صحیح اور ثابت شدہ اسانید سے بیان کر دیا ہے، اس لیے ہم نے تاریخ کی کتابوں سے بھی بطورِ تائید حوالہ جات پیش کر دیے ہیں۔ دوم: سوال میں مذکور غیر متوازن مضمون نگار نے اسما اور عائشہ رضی اللہ عنہما کی عمر کے درمیان فرق دس سال کا بیان کرنے کیلیے جن باتوں کو دلیل بنایا ہے، ان کے بارے میں ہم کہتے ہیں کہ: یہ بات سند کے اعتبار سے ثابت نہیں ہے، اور اگر یہ سند کے اعتبار سے ثابت ہو بھی جائے تو پھر بھی سابقہ قطعی دلائل کی روشنی میں اسے اس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ کوئی تعارض باقی نہیں رہتا۔ چنانچہ سند کے حوالے سے تفصیل یہ ہے کہ: عبد الرحمن بن ابی زناد کہتے ہیں کہ: "اسما بنت ابی بکر عائشہ رضی اللہ عنہا سے دس سال بڑی تھیں" یہ بات اصمعی ، عبد الرحمن ابن ابی زناد سے بیان کرتے ہیں جو کہ اصمعی سے آگے دو سندوں سے منقول ہے: پہلی سند یہ ہے کہ : ابن عساکر نے " تاريخ دمشق " (69/10) میں لکھا ہے کہ: "ہمیں ابو الحسن بن علی بن احمد مالکی نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں ہمیں احمد بن عبد الواحد سلمی نے، وہ کہتے ہیں ہمیں میرے دادا ابو بکر نے وہ کہتے ہیں کہ ہمیں ابو محمد بن زبر نے، وہ کہتے ہیں کہ مجھے احمد بن سعد بن ابراہیم زہری نے وہ کہتے ہیں ہمیں محمد بن ابی صفوان نے ، وہ کہتے ہیں ہمیں اصمعی نے اور وہ ابو زناد سے یہ بات ذکر کرتے ہیں۔۔۔" دوسری سند یہ ہے: اسے ابن عبد البر رحمہ اللہ نے " الاستيعاب في معرفة الأصحاب " (2/616) میں ذکر کیا ہے کہ : "ہمیں احمد بن قاسم نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں ہمیں محمد بن معاویہ نے بتلایا، وہ کہتے ہیں ہمیں ابراہیم بن موسی بن جمیل بیان کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں اسماعیل بن اسحاق قاضی نے بیان کیا وہ کہتے ہیں کہ ہمیں نصر بن علی نے بیان کیا وہ کہتے ہیں کہ ہمیں اصمعی نے بتلایا وہ کہتے ہیں کہ ہمیں ابو زناد نے بیان کیا کہ: اسما بنت ابی بکر کہتی ہیں-آپ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کم و بیش دس سال بڑی تھیں-۔۔۔" اب یہاں اگر کوئی منصف محقق صرف اس ایک اثر کو لیکر بیٹھ جائے اور بقیہ ثابت شدہ تمام تر آثار کو سرے سے تسلیم نہ کرے تو یہ علم سمیت فنِ تحقیق پر کلنک ہوگا، اس کی درج ذیل وجوہات ہیں: 1- عبد الرحمن بن ابی زناد (100- 174 ہجری) اسما اور عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر کے مابین فرق متعین کرتے ہوئے دس سال کا موقف رکھنے والے فردِ واحد ہیں، جبکہ سابقہ دلائل میں متعدد تابعین کرام سے دس سے زیادہ کا فرق ثابت ہے، اور یہ بات سب کے ہاں مسلمہ ہے کہ زیادہ افراد کی بات کو مقدم کیا جائے گا فرد واحد کی بات نہیں مانی جائے گی۔ 2- متعدد اہل علم نے عبد الرحمن بن ابی زناد کو ہی ضعیف قرار دیا گیا ہے، چنانچہ " تهذيب التهذيب " (6/172) میں ہے کہ: امام احمد ان کے بارے میں کہتے ہیں: " مضطرب الحديث " ابن معین کہتے ہیں: "محدثین ایسے لوگوں کی احادیث کو حجت نہیں بناتے" علی بن مدینی کہتے ہیں: "جو احادیث مدینہ میں انہوں نے بیان کی ہیں وہ صحیح ہیں، جبکہ بغداد میں بیان کردہ احادیث بغدادی لوگوں نے خراب کر دی ہیں، اور میں نے عبد الرحمن بن مہدی کو دیکھا تھا کہ انہوں نے عبد الرحمن بن ابی زناد کی احادیث قلم زد کی ہوئیں تھیں، نیز وہ کہا کرتے تھے: عبد الرحمن بن ابی زناد کی احادیث میں فلاں ،فلاں، فلاں فقہا کے نام ہیں جنہیں بغدادیوں نے عبدالرحمن ابن ابی زناد کو [تلقین یعنی]لقمہ دے کر احادیث میں شامل کروایا ہے" ابو حاتم کہتے ہیں کہ: "ان کی احادیث لکھی جائیں لیکن حجت نہیں بن سکتیں" امام نسائی کہتے ہیں: "ان کی احادیث کو حجت نہیں بنایا جا سکتا" ابو احمد بن عدی کہتے ہیں: "ان کی روایت کردہ کچھ احادیث پر متابعت موجود نہیں ہے" جبکہ امام ترمذی کی طرف سے حدیث نمبر: (1755) کے تحت ان کی توثیق، گزشتہ جرح مفسر سے متصادم ہے، لہذا جرح مفسر کو توثیق پر ترجیح حاصل ہوگی، خصوصاً ایسی صورت میں جب عبد الرحمن بن ابی زناد کی بیان کردہ بات معروف کتب احادیث و تاریخ سے متصادم ہو۔ 3- عبد الرحمن بن ابی زناد کی جو روایت ابن عبد البر نے نقل کی ہے کہ: " اسما بنت ابی بکر عائشہ رضی اللہ عنہا سے تقریبا ً دس سال بڑی تھیں " یہ روایت ابن عساکر کی روایت سے زیادہ صحیح ہے؛ کیونکہ اس روایت کی سند میں اصمعی سے بیان کرنے والے نصر بن علی ثقہ ہیں جیسے کہ حافظ ابن حجر نے " تهذيب التهذيب " (10/431) میں بیان کیا ہے، جبکہ ابن عساکر کی سند میں موجود اصمعی کے شاگرد محمد بن ابی صفوان کو کسی نے بھی ثقہ قرار نہیں دیا۔ چنانچہ ابن عبد البر کی روایت کے عربی الفاظ: " أو نحوها " جس کا اردو ترجمہ: "کم و بیش" سے کیا گیا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ راوی کو دس سال پر یقین نہیں تھا، اس طرح سے یہ روایت ضعیف ثابت ہوتی ہے، لہذا کسی بھی انصاف پسند محقق کیلیے یہ جائز نہیں ہے کہ اس شک کو بنیاد بنا کر سابقہ ٹھوس دلائل کو رد کر دے۔ 4- یہ بھی ممکن ہے کہ اس میں اور باقی روایات میں تطبیق دینا بھی ممکن ہے، وہ اس طرح کہ: اسما رضی اللہ عنہا کی ولادت بعثت سے چھ یا پانچ سال پہلے ہوئی، جبکہ عائشہ بعثت سے چار یا پانچ سال بعد پیدا ہوئیں، چنانچہ جب اسما سن 73 ہجری میں فوت ہوئیں تو ان کی عمر اس وقت 91 یا 92 سال تھی، یہی بات ذہبی نے " سير أعلام النبلاء " (3/380) میں ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ: "ابن ابی زناد کے مطابق : اسما عائشہ سے 10 سال بڑی تھیں، اس بنا پر اسما کی عمر وفات کے وقت 91 سال بنتی ہے، جبکہ ہشام بن عروہ کہتے ہیں کہ : اسما 100 سال تک زندہ رہیں اور ان کا کوئی دانت بھی نہیں گرا تھا" انتہی 5- اسی طرح یہ بھی احتما ل ہے کہ: اسما رضی اللہ عنہا کی پیدائش بعثت سے تقریباً 14 سال پہلے ہوئی -مضمون نگار نے اسی موقف کو اپنایا ہے- تو ہجرت کے سال ان کی عمر 27 سال تھی، اور اسما رضی اللہ عنہا کی وفات کے وقت سن 73 ہجری میں ان کی عمر ایک سو سال بنتی ہے، چونکہ تمام تاریخی مصادر اس بات پر متفق ہیں کہ اسما بنت ابی بکر کی وفات اسی سال ہوئی ہے جب ان کے بیٹے عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو سن 73 میں شہید کیا گیا، اور اس سال ان کی عمر سو سال ہو چکی تھی، کیونکہ ہشام اپنے والد عروہ بن زبیر سے نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ: "اسما سو سال تک پہنچ گئی تھیں، اس کے باوجود ان کا کوئی دانت ٹوٹا تھا اور نہ ہی یاد دشت میں فرق پیدا ہوا" ہم آپ کے سامنے ان مراجع کا بھی ذکر کر دیتے ہیں جن میں یہ بات مذکور ہے: " حلیۃ الأولياء " (2/56) اور " معجم الصحابہ " از: ابو نعیم اصبہانی ، " الاستيعاب " از: ابن عبد البر (4/1783)، " تاريخ دمشق " از: ابن عساکر (69/8)، " اسد الغابہ "از: ابن الاثیر(7/12) ، " الإصابۃ" از: ابن حجر (7/487) اور " تهذيب الكمال " (35/125) اسما بنت ابو بکر کی ولادت بعثت سے دس سال پہلے کا موقف اصل میں ابو نعیم اصبہانی کا ہے، ان کا کہنا ہے کہ: "اسما رضی اللہ عنہا عائشہ رضی اللہ عنہا کی باپ کی طرف سے بہن تھیں، اور وہ عائشہ سے بڑی بھی تھیں، آپ کی پیدائش ہجرت سے 27 سال پہلے ہوئی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے دس سال پہلے، جس دن اسما پیدا ہوئیں تھیں اس وقت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی عمر 21 سال تھی، تو جس وقت اسما رضی اللہ عنہا مکہ میں اپنے بیٹے عبد اللہ بن زبیر کی شہادت کے کچھ دن بعد فوت ہوئیں تو آپ کی عمر سو سال تھی، اس وقت آپ کی بینائی جا چکی تھی" انتہی یہاں سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ابو نعیم رحمہ اللہ مکی زندگی کو 17 سال پر محیط سمجھتے ہیں، کچھ اہل سیرت اگرچہ اس کے قائل ہیں لیکن یہ موقف درست نہیں ہے، اس لیے ابو نعیم کی گفتگو سمجھنے کیلیے اس بات کی طرف توجہ ہونا ضروری امر ہے۔ نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے عمر کے تفاوت کے باوجود شادی کیوں کی اس کی کیا حکمتیں تھیں ؟ اس بارے میں جاننے کیلیے سوال نمبر: (44990) کا جواب ملاحظہ کریں۔ واللہ اعلم.

04/08/2023

3نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت اور وفات کے بارے میں علمائے کرام کے اقوال اور ان میں سے راجح کا بیان
سیرت نگار اور مؤرخین کا تاریخ، دن، اور ماہِ ولادت کی تعیین کے بارے میں اختلاف ہے، یہ ایک ایسا امر ہے جس کا معقول سبب بھی ہے، وہ یہ کہ کسی کو اس مبارک نومولود کی آئندہ شان کے بارے میں علم نہیں تھا، چنانچہ انہیں عام بچوں کی طرح سمجھا گیا، یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی یقینی اور قطعی طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے بارے میں تحدید نہیں کر سکتا۔ ڈاکٹر محمد طیب نجار رحمہ اللہ کہتے ہیں: "ہو سکتا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہو کہ جس وقت آپکی پیدائش ہوئی تو کسی کو بھی آپکی عظمت شان کے بارے میں توقع نہ تھی، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ابتدائی زندگی پر اتنی توجہ نہیں دی گئی، تاہم جس وقت اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی ولادت سے چالیس سال بعد دعوت دینے کا حکم دیا تو لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلقہ یادوں کو واپس لانے لگے، اور آپکی زندگی کے بارے میں ہر چھوٹی بڑی چیز کے بارے میں پوچھنے لگے، اس کیلئے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی زندگی میں رونما ہونے والے واقعات کا بیان کافی معاون ثابت ہوا، اسی طرح آپ کی زندگی سے منسلک صحابہ کرام اور دیگر افراد نے بھی آپکی زندگی سے متعلقہ واقعات بیان کیے ۔ اس وقت سے مسلمان اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے متعلقہ کوئی بات بھی سنتے تو اسے محفوظ کر لیتے تا کہ اپنے بعد آنے والے لوگوں کو سیرت النبی سے آگاہ کریں" " القول المبين في سيرة سيد المرسلين " ( ص 78 ) دوم: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے متعلقہ متفقہ باتوں میں سال کیساتھ دن کی تعیین بھی شامل ہے ۔ 1- سال کے بارے میں یہ رائے متفقہ ہے کہ یہ عام الفیل کا سال تھا، چنانچہ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: "اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش مکہ مکرمہ میں عام الفیل کے سال ہوئی" " زاد المعاد في هدي خير العباد " ( 1 / 76 ) محمد بن یوسف صالحی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "ابن اسحاق رحمہ اللہ کے مطابق ولادت کا سال عام الفیل ہے" ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں : "جمہور کے ہاں یہی مشہور ہے" ابراہیم بن منذر حزامی رحمہ اللہ جو کہ امام بخاری کے استاد ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ : "اس کے بارے میں کسی بھی اہل علم کو شک و شبہ نہیں ہے" جبکہ خلیفہ بن خیاط، ابن جزار، ابن دحیہ، ابن جوزی، اور ابن قیم نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اس بارے میں اجماع ہے۔ " سبل الهدى والرشاد في سيرة خير العباد " ( 1 / 334 ، 335 ) ڈاکٹر اکرم ضیاء عمری حفظہ اللہ کہتے ہیں: "حق بات یہ ہے کہ اس موقف سے متصادم تمام روایات ضعیف ہیں، جن کا لب لباب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت عام الفیل سے دس سال بعد ہوئی، یا 23 سال بعد ہوئی یا 40 سال بعد ہوئی، علمائے کرام کی اکثریت اس بات کی قائل ہے کہ آپ کی ولادت عام الفیل میں ہوئی، انکے اس موقف کی تائید جدید تحقیقات نے بھی کی ہے جو مسلم اور مستشرق محققین کی جانب سے کی گئی ہیں، انہوں نے عام الفیل کو 570ء یا 571ء کے موافق پایا ہے" " السيرة النبوية الصحيحة " ( 1 / 97 ) 2- جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کا دن سوموار کو بنتا ہے، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی دن پیدا ہوئے، اسی دن رسالت سے نوازا گیا، اور اسی دن آپ نے وفات پائی، چنانچہ ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوموار کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں پوچھا گیا، تو آپ نے فرمایا: (اس دن میں پیدا ہوا، اور اسی دن مجھے مبعوث کیا گیا-یا مجھ پر وحی نازل ہوئی-) مسلم : ( 1162 ) ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں : "اس شخص نے بعید از قرائن بات کی ،بلکہ غلط کہا ، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت جمعہ کے دن 17 ربیع الاول کہتا ہے" جمعہ کے دن کے قول کو حافظ ابن دحیہ نے کسی شیعہ عالم کی کتاب: " إعلام الروى بأعلام الهدى " سے نقل کیا ہے، اس کے بعد انہوں نے اسکو ضعیف بھی کہا ہے، اور ایسے قول کی تردید کرنی بھی چاہیے کیونکہ یہ نص سے متصادم ہے۔ " السيرة النبوية " ( 1 / 199 ) سوم: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے متعلق اختلافی امور میں مہینے اور اس مہینے میں دن کی تعیین ہے، اس بارے میں ہمیں بہت سے اقوال ملے ہیں، جن میں سے کچھ یہ ہیں: 1. آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش دو ربیع الاول کو ہوئی چنانچہ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں: "یہ بھی کہا گیا ہے کہ دو ربیع الاول کو آپکی پیدائش ہوئی، یہ قول ابن عبد البر نے "الاستیعاب" میں نقل کیا ہے، اور واقدی نے ابو معشر نجیح بن عبد الرحمن مدنی سے بھی روایت کیا ہے" " السيرة النبوية " ( 1 / 199 ) 2. اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آٹھ ربیع الاول کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ہوئی ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: "یہ بھی کہا گیا ہے کہ آٹھ ربیع الاول کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ہوئی ، یہ قول حمیدی نے ابن حزم سے بیان کیا ہے، اور مالک، عقیل، یونس بن یزید وغیرہ نے زہری کے واسطے سے محمد بن جبیر بن مطعم سے روایت کیا ہے، نیز ابن عبد البر رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ مؤرخین اسی کو صحیح قرار دیتے ہیں، جبکہ حافظ محمد بن موسی خوارزمی نے اسی کو یقینی طور پر صحیح کہا ہے، حافظ ابو خطاب ابن دحیہ نے اسے اپنی کتاب " التنوير في مولد البشیر النذير " میں اسے راجح قرار دیا ہے" " السيرة النبوية " ( 1 / 199 ) 3. یہ بھی کہا گیا ہے کہ دس ربیع الاول کو آپ کی پیدائش ہوئی چنانچہ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں: "آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش دس ربیع الاول کو ہوئی، اسے ابن دحیہ نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے، اور ابن عساکر نے ابو جعفر باقر سے بھی روایت کیا ہے، نیز مجالد نے شعبی سے یہی موقف بیان کیا ہے" " السيرة النبوية " ( 1 / 199 ) 4. اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ 12 ربیع الاول کو آپ کی پیدائش ہوئی چنانچہ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں: "یہ بھی کہا گیا ہے کہ 12 ربیع الاول کو آپ کی پیدائش ہوئی، اسی موقف کی صراحت ابن اسحاق نے کی ہے، اور ابن ابی شیبہ نے اپنی کتاب "المصنف" میں عفان سے انہوں نے سعید بن میناء سے انہوں نے جابر اور ابن عباس دونوں سے روایت کیا ہے، اور دونوں کہتے ہیں: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عام الفیل بروز سوموار 12 ربیع الاول کو پیدا ہوئے، سوموار کے دن ہی آپ مبعوث ہوئے، اور اسی دن آپکو معراج کروائی گئی، اور اسی دن آپ نے ہجرت کی، اور اسی دن آپ فوت ہوئے، جمہور اہل علم کے ہاں یہی مشہور ہے" واللہ اعلم " السيرة النبوية " ( 1 / 199 ) اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ کی پیدائش رمضان میں ہوئی ہے، یہ بھی کہا گیا ہے کہ صفر میں اور اس کے علاوہ دیگر اقوال بھی اس بارے میں موجود ہیں۔ ہمیں جو نظر آ رہا ہے وہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے حوالے سے مضبوط ترین اقوال آٹھ ربیع الاول سے لیکر 12 ربیع الاول کے درمیان ہیں، اور کچھ مسلم محقق ماہرین فلکیات، اور ریاضی دان افراد نے یہ ثابت کیا ہے کہ سوموار کا دن ربیع الاول کی نو تاریخ کو بنتا ہے، چنانچہ یہ ایک نیا قول ہو سکتا ہے، لیکن یہ ہے مضبوط ترین قول، اور یہ شمسی اعتبار سے 20 اپریل 571ء کا دن ہے، اسی کو معاصر سیرت نگاروں نے راجح قرار دیا ہے، ان میں محمد الخضری، اور صفی الرحمن مبارکپوری بھی شامل ہیں۔ ابو القاسم سہیلی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش شمسی اعتبار سے 20 اپریل بنتی ہے" " الروض الأُنُف " ( 1 / 282 ) پروفیسر محمد خضری رحمہ اللہ کہتے ہیں: " مرحوم محمود پاشا- جو کہ مصری ماہر فلکیات ہیں ، آپ فلکیات، جغرافیہ، حساب میں بہت ماہر تھے، انہوں نے کافی کتب اور تحقیقات شائع کی ہیں، 1885ء میں فوت ہوئے- انہوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش صبح سویریے 9 ربیع الاول بمطابق 20 اپریل 571ء کو ہوئی، جو کہ حادثہ فیل کا پہلا سال تھا، آپ کی ولادت شعب بنی ہاشم ، میں ابو طالب کے گھر ہوئی" " نور اليقين في سيرة سيد المرسلين " ( ص 9 )، اسی طرح دیکھیں: " الرحيق المختوم " ( ص 41 ) چہارم: جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ آپکی وفات سوموار کو ہوئی، اور ابن قتیبہ سے جو نقل کیا جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات بدھ کے دن ہوئی تو یہ درست نہیں ہے، یہ ہو سکتا ہے کہ انکی مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین ہو، تو یہ درست ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین بدھ کے دن ہوئی۔ جبکہ وفات کے سال کے متعلق بھی کوئی اختلاف نہیں ہے کہ یہ سن گیارہ ہجری میں ہوئی۔ اور ماہِ وفات کے بارے میں بھی کوئی اختلاف نہیں ہے کہ آپکی وفات ربیع الاول میں ہوئی جبکہ اس مہینے کے دن کے متعلق علمائے کرام میں اختلاف ہے کہ : 1- تو جمہور علمائے کرام 12 ربیع الاول کے قائل ہیں 2- خوازمی کہتے ہیں کہ آپکی وفات ربیع الاول کی ابتدا میں ہوئی تھی 3- ابن کلبی ، اور ابو احنف کہتے ہیں کہ یہ ربیع الاول کو ہوئی ، اسی کی جانب سہیلی کا میلان ہے، اور حافظ ابن حجر نے اسی کو راجح قرار دیا ہے۔ جبکہ مشہور وہی ہے جس کے بارے میں جمہور علمائے کرام کا موقف ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات 12 ربیع الاول سن گیارہ ہجری کو ہوئی تھی۔

04/08/2023

4نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنی بار عمرہ کیا؟
قتادہ رحمہ اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ انس رضي اللہ تعالی عنہ نے انہیں بتایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چار مرتبہ عمرہ کیا ، صرف وہ عمرہ جوآپ نے حج کے ساتھ کیا ہے اس کے علاوہ باقی سب عمرے ذی القعدہ میں تھے ۔ ایک عمرہ توحدیبیہ سے ، یا حدیبیہ کے زمانے میں ذی القعدہ کے مہینہ میں ، اورایک عمرہ آ‏ئندہ برس ذی القعدہ میں ، اور ایک عمرہ جعرانہ سے یہ بھی ذی القعدہ میں تھا جب کہ آپ نے مال غنیمت بھی تقسیم فرمایا ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر الحج ( 1654 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( الحج 1253 ) ۔ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعلی کہتے ہیں : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ھجرت کے بعد چارعمرے کیے جوسب کے سب ذی القعدہ کے مہینہ میں تھے ۔ پہلا : عمرہ حدیبیہ : یہ سب سے پہلا عمرہ ہے جوکہ چھـ ھجری میں کیا تو مشرکین مکہ میں انہیں روک دیا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے اونٹ وہیں ذبح کردیے اورخود اورصحابہ کرام نے اپنے سرمنڈوا کر اپنے احرام سے حلال ہوگۓ اوراس سال مدینہ واپس تشریف لے آۓ ۔ دوسرا : عمرہ قضاء : حدیبیہ کے بعد والے سال نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوۓ اوروہاں تین دن قیام فرمایا اورعمرہ مکمل کرنے کے بعد وہاں سے واپس تشریف لاۓ ۔ تیسرا : وہ عمرہ جونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے ساتھ کیا تھا ۔ چوتھا : جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم حنین کی جانب نکلے اورمکہ واپسی پر جعرانہ سے عمرہ کا احرام باندھ کرمکہ داخل ہوۓ ۔۔ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمرے چار سے زآئد نہیں ہیں ۔ دیکھیں : زاد المعاد ( 2 / 90-93 ) ۔ امام نووی رحمہ اللہ تعالی بیان فرماتے ہیں : علماء کرام کا کہنا ہے کہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ عمرے ذی القعدہ کی فضیلت اوردورجاھلیت کی مخالفت کی بنا پر اس مہینہ میں کیۓ ، اس لیے کہ اہل جاہلیت کا یہ خیال تھا کہ ذی القعدہ ميں عمرہ کرنا بہت بڑے فجور کا کام ہے جیسا کہ پیچھے بیان ہوچکا ہے ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کئ بار اس لیے کیا تا کہ لوگوں کے لیے اچھی طرح بیان ہوجاۓ کہ اس مہینہ میں عمرہ کرنا جائزہے ، اورجوکچھ اہل جاہلیت کرتے تھے وہ باطل ہے ۔ واللہ تعالی اعلم ۔ دیکھیں شرح مسلم ( 8 / 235 ) ۔

04/08/2023

5فاطمہ بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل
فاطمہ بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم قریشی ھاشمی خاندان سے تعلق رکھتیں اورحسن و حسین رضي اللہ تعالی عنہما کی والدہ تھیں ۔ ان کی پیدائش بعثت نبوی سے کچھ قبل کی ہے اورجنگ بدر کے بعد علی بن ابی طالب رضي اللہ تعالی عنہ سے شادی ہوئ ۔ اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم فاطمہ رضي اللہ تعالی عنہا سے بہت زیادہ محبت اوران کی عزت کرتے تھے ، اور وہ بہت صابرہ اوردین پرچلنے والی اوربھلائ پسند پاکباز اورقناعت پسند اوربہت ہی شاکرہ خاتون تھیں ۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئ توفاطمہ رضي اللہ تعالی عنہا بہت زیادہ غمگین ہوئيں اوربہت رؤئيں اورکہنے لگيں اے اباجان ہم جبریل امین سے افسوس کا اظہارکرتے ہیں اے اباجان اللہ عزوجل نےآپ کی دعا قبول فرمالی ، اے اباجان جنت الخلدمیں پکا ٹھکانہ ہو ۔ فاطمہ رضي اللہ تعالی عنہا کلام کے اعتبارسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سب لوگوں سے زيادہ مشابہت رکھتی تھیں ۔ عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ : میں نے بات چيت اورکلام کے لحاظ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ فاطمہ رضي اللہ تعالی عنہا کے علاوہ کسی اورکو نہیں دیکھا ، اورجب فاطمہ رضي اللہ تعالی عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لاتيں تونبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوجاتے اورانہیں چومتے اورخوش آمدید کہتے ، اور فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اسی طرح کا سلوک کرتی تھیں ۔ فاطمہ رضي اللہ تعالی عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صرف چھـ ماہ زندہ رہیں اورانہیں رات کے وقت دفن کیا گيا ۔ واقدی کاکہنا ہے کہ : ہمارے پاس سب سے زیادہ پایہ ثبوت کوپہنچنے والا قول یہی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ عباس رضي اللہ تعالی عنہ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائ اورانہیں قبرمیں اتارنے والے عباس اورعلی اور فضل رضي اللہ تعالی عنہم تھے ۔ اوران کی اولاد میں بیٹے حسن اورحسین اور بیٹیاں ام کلثوم جن سے عمربن خطاب اور زينب جن سے عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب رضي اللہ تعالی عنہم نے شادی کی تھی ۔ مسروق رحمہ اللہ تعالی عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا : فاطمہ رضي اللہ تعالی عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سی چال چلتی ہوئ آئيں تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری بیٹی ( مرحبا) خوش آمدید ، پھر انہیں اپنے دائيں یا بائيں جانب بٹھایا ، پھران سے رازداری کے ساتھ کوئ بات کی تووہ رونے لگيں تومیں نے انہیں کہا کہ کیوں رو رہی ہو؟ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ رازداری کے ساتھ بات کی تووہ مسکرانے لگيں ، تومیں نے کہا آج کی طرح میں کبھی نہیں دیکھا کہ خوشی اتنی غم کے قریب ہو۔ تومیں نے ان سےسوال کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کیا کہا ، تووہ کہنے لگيں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے راز کو افشاں نہیں کروں گی ، حتی کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئ تومیں نے پھر ان سے پوچھا توانہوں نے جواب دیا : مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رازداری سے یہ باب کہی تھی کہ میرے ساتھ جبریل علیہ السلام ہرسال ایک دفعہ قران کا دورکرتے تھے ، اوراس سال انہوں نے میرے ساتھ قرآن مجید کا دور دو بارکیا ہے ، میرا خیال ہے کہ میری موت کا وقت قریب آگیا ہے ،اورتو میرے گھر والوں میں سے سب سے پہلی ہوگی جو میرے ساتھ ملے گي ، تومیں اس بنا پررونے لگی ۔ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کہا کہ کیا تجھے یہ پسند نہیں کہ تو جنتی عورتوں یا مومنوں کی عورتوں کی سردار بنو تومیں مسکرانے لگی ۔ صحح بخاری حدیث نمبر ( المناقب 3353 ) ۔ اورفاطمہ رضي اللہ تعالی عنہا کے فضائل میں سے یہ بھی ہے : صحیحین میں عبداللہ بن مسعود رضي اللہ تعالی عنہا سے حدیث مروی جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ : نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کے قریب نماز پڑھ رہے تھے اورابوجھل اوراس کے دوسرے دوست واحباب بیٹھے ہوۓ تھے توان میں سے ایک کہنے لگا بنوفلان کے اونٹ کی اوجڑی کون لاکرمحمد صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدہ میں جائيں توان کی پشت پررکھے گا ؟ توقوم میں سب سے زیادہ شقی اور بدبخت اٹھا اوراسے جاکرلے آیا اورجب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں گۓ توان کی پشت پردونوں کندھوں کے درمیان رکھـ دیا اورمیں یہ سب کچھ دیکھـ رہا تھا کاش میں کچھ کرسکتا اور روک سکتا ۔ ابن مسعود رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ ہنستے ہوۓ لوٹ پوٹ ہوکر ایک دوسرے کے اوپر گـرنے لگے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ ميں پڑے ہوۓ اپنا سر نہیں اٹھا رہے تھے حتی کہ فاطمہ رضي اللہ تعالی عنہا تشریف لائيں اوراسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ سے دور پھینکا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ سے اپنا سر اٹھایا پھرفرمانے لگے : اے اللہ قریش کوتباہ کردے یہ تین دفعہ کہا توجب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کےخلاف بددعا کی توانہیں بہت ہی مشقت محسوس ہوئ ان کا خیال تھا کہ اس جگہ پردعا قبول ہوتی ہے ۔۔۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 233 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 3349 ) ۔ اورفاطمہ رضي اللہ تعالی عنہا کی فضیلت میں یہ حديث بھی وارد ہے : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے جس نے اسے ناراض کیا تواس مجھے ہی ناراض کیا ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 3437 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 4483 ) ۔ دیکھیں کتاب : نزھۃ الفضلاء تھذیب سیراعلام النبلاء ( 1 / 116 ) ۔ .

04/08/2023

6سواری کرنے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےگھوڑے ، خچر ، اونٹ ، اورگدھے پر سواری فرمائ‏ ، کبھی تونبی صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑے کی ننگی پیٹھ پراورکبھی کاٹھی ڈال کرسوارہوۓ ، بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑے کودوڑاتے بھی تھے ، اکثرطورپر اکیلے ہی سوارہوتے اورکبھی اونٹ پر اپنے پیچھے کسی کوبٹھا بھی لیتے تھے ۔ اورکبھی ایسی بھی حالت ہوتی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے آگے اور پیچھے بھی کسی بٹھاتے اورخود دومیان میں ہونے تواس طرح اونٹ پرتین اشخاص بیٹھتے تھے ، اوران پیچھے بیٹھنے والوں میں مرد بھی تھے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض بیویاں بھی پیچھے بیٹھنے والوں میں شامل ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اکثرطورپر سواری یا تواونٹ تھی اور یا پھر گھوڑا ، اورخچر کے متعلق یہ معروف ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ہی خچرتھا جوکسی بادشاہ نے آّپ کوھدیہ دیا تھا ، اورخچر عرب کی سرزمین پرمعروف نہیں تھے بلکہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوخچر ھدیہ کیا گيا تویہ کہا گيا کہ : کیا ہم گھوڑوں سےگدھوں کی جفتی نہ کروائيں ؟ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ کام تووہ لوگ کرتے ہیں جنہیں علم نہیں ہے ۔

04/08/2023