اللہ تعالی پرایمان
1شہادتین کے قبول ہونے کی شرائط
یرا سوال ایک خطبے سے متعلق ہے؛ خطیب صاحب نے کلمے کے متعلق گفتگو کی اور بتلایا کہ کلمے کی 9 شرائط ہیں، انہوں نے کہا کہ اہل علم نے تقریباً 9 یا کم و بیش شرائط ذکر کی ہیں، جب یہ شرائط پوری ہوں گی تو انسان جنت میں داخل ہو سکے گا، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ محض زبان سے الفاظ ادا کرنا کافی نہیں ہو گا، میں چاہتا ہوں کہ کلمے کی یہ شرائط جان سکوں، مجھے ان میں سے کچھ یاد ہیں: مثلاً: علم، یقین وغیرہ، تو کیا آپ کو یہ چیزیں معلوم ہیں؟ آپ بقیہ شرائط ذکر کر دیں میں آپ کی اس مدد کو ہمیشہ یاد رکھوں گا۔ ان شاء اللہ
جواب کا متن
الحمد للہ.
محسوس ہوتا ہے کہ آپ کلمے سے مراد لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ لے رہے ہیں، اور خطیب کی مراد بھی یہی تھی۔
تو کلمہ شہادت کی متعدد شرائط ہیں، جو کہ درج ذی ہیں:
پہلی شرط: علم
یعنی: اس کے معنی کا علم ہو، نفی کا بھی اور اثبات دونوں کا ایسا علم ہو جس سے جہالت ختم ہو جائے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ
ترجمہ: جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں۔ [محمد: 19]
اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے:
إِلَّا مَنْ شَهِدَ بِالْحَقِّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ
ترجمہ: ماسوائے ان لوگوں کے جنہوں نے جانتے ہوئے حق کی گواہی دی۔[الزخرف: 86] یعنی : انہوں نے اپنے دل سے سمجھتے ہوئے زبان کے ساتھ اقرار کرتے ہوئے لا الہ الا اللہ کی گواہی دی ۔
صحیح حدیث میں سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو شخص جانتے ہوئے فوت ہو کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں، تو وہ جنت میں داخل ہو گیا۔)
دوسری شرط: یقین
کلمہ پڑھنے والے کا کلمہ پڑھتے ہوئے کلمہ کے مفہوم پر ایسا پختہ یقین کہ جس کی وجہ سے ہر قسم کا شک زائل ہو جائے؛ کیونکہ ایمان کے لیے یقین ہونا لازم ہے، کلمہ پڑھتے ہوئے غالب گمان سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا، تو دل میں شک آنے سے کس طرح فائدہ ہو سکتا ہے؟ اہل ایمان کے بارے میں فرمانِ باری تعالی ہے:
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أُولَئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ
ترجمہ: یقیناً مومن وہ لوگ ہیں جو اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور شک و شبہ میں نہیں پڑے، انہوں نے اپنے اموال اور اپنی جانوں کے ساتھ راہ الہی میں جہاد کیا ، یہی لوگ سچے مومن ہیں۔ [الحجرات: 15] تو یہاں اللہ تعالی نے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر سچے ایمان کی شرط یہ رکھی ہے کہ وہ شک میں مبتلا نہیں ہوتے؛ کیونکہ شک کرنے والا تو منافق ہوتا ہے، اللہ تعالی ہمیں محفوظ رکھے۔
اسی طرح سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (میں گواہی دیتا ہو کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں ، جو بندہ ان دونوں گواہیوں میں شک کیے بغیر اللہ سے ملے گا اسے جنت سے نہیں روکا جائے گا)
تیسری شرط: قبول کرنا
یعنی اس کلمے کے تقاضوں کو دل و زبان سے قبول کرنا، کلمے کو قبول کرنے والے کے بارے میں فرمانِ باری تعالی ہے:
إِلَّا عِبَادَ اللَّهِ الْمُخْلَصِينَ (40) أُولَئِكَ لَهُمْ رِزْقٌ مَعْلُومٌ (41) فَوَاكِهُ وَهُمْ مُكْرَمُونَ (42) فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ
ترجمہ: سوائے اللہ کے مخلص بندوں کے، یہی لوگ ہیں جن کے لیے پہلے سے معلوم رزق ہے، پھل ہیں اور ان کی عزت افزائی کی جائے گی نعمتوں والی جنتوں میں۔[الصافات: 40 - 43] اس سے آگے بھی انہی کا تذکرہ ہے۔
ایک اور مقام پر اللہ تعالی نے فرمایا:
مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ خَيْرٌ مِنْهَا وَهُمْ مِنْ فَزَعٍ يَوْمَئِذٍ آمِنُونَ
ترجمہ: نیکی لے کر آنے والے ہر ایک کو اس سے بھی بہتر صلہ ملے گا، اور وہ سب اس دن کی پریشانی سے امن میں ہوں گے۔[النمل: 89]
اور سیدنا ابو موسی رضی اللہ عنہ کی صحیح حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: (اس کی مثال جو اللہ نے مجھے ہدایت اور علم دے کر مبعوث فرمایا، ایسی ہے جیسے زمین پر خوب بارش برسی اور اس میں کچھ حصہ ایسا تھا جس نے پانی کو قبول کر لیا اور چارا سمیت بہت سا سبزہ اگایا۔ اور اس کا کچھ حصہ بہت سخت تھا، اس نے پانی کو جمع رکھا، پھر اللہ تعالیٰ نے اس جمع شدہ پانی سے لوگوں کو فائدہ پہنچایا کہ انہوں نے اسے پیا، پلایا اور زراعت میں لگایا۔ اور زمین کا کچھ حصہ بنجر تھا کہ نہ تو پانی کو روکے اور نہ گھاس اگائے۔ تو یہ اس کی مثال ہے کہ جس نے اللہ کے دین کو سمجھا اور اللہ نے اس کو اس چیز سے فائدہ دیا جو مجھے عطا فرمائی، اس نے خود بھی سیکھا اور دوسروں کو بھی سکھایا اور اس شخص کی مثال ہے جس نے اس طرف توجہ نہ کی اور مجھے دے کر بھیجی گئی اللہ کی ہدایت کو قبول نہ کیا)
چوتھی چیز: فرمانبرداری
یعنی کلمے میں جو کچھ بیان ہوا ہے اس کی ایسی فرمانبرداری جو نافرمانی کے منافی ہو، اس کی دلیل اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَأَنِيبُوا إِلَى رَبِّكُمْ وَأَسْلِمُوا لَهُ
ترجمہ: اور تم اپنے رب کی طرف توبہ کرتے ہوئے رجوع کرو اور اسی کے فرمانبردار بن جاؤ۔ [الزمر: 54]
ایک اور مقام پر فرمایا:
وَمَنْ أَحْسَنُ دِينًا مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ
ترجمہ: اور اس شخص سے بہترین دیندار کون ہو سکتا ہے جو اپنا چہرہ اللہ کے سپرد کر دے اور وہ نیکو کار بھی ہو؟۔[النساء: 125]
ایسے ہی فرمانِ باری تعالی ہے:
وَمَنْ يُسْلِمْ وَجْهَهُ إِلَى اللَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى وَإِلَى اللَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ
ترجمہ: اور جو شخص اپنا چہرہ اللہ کے سپرد کر دے اور وہ نیکو کار بھی ہو تو اس نے مضبوط کڑے کو اچھی طرح تھام لیا ہے، اور تمام امور کا انجام اللہ کے سپرد ہے۔[لقمان: 22] یعنی اس نے لا الہ الا اللہ کو مضبوطی سے تھام لیا ہے۔ سپرد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی کا فرمانبردار بنا دے، اور نیکوکار کا مطلب ہے کہ وہ توحید پرست ہو۔
پانچویں شرط: صداقت
مطلب یہ ہے کہ ایسی سچائی جو جھوٹ کی نفی کر دے، یعنی یہ کلمہ صدق دل سے پڑھے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ دل کی دنیا زبان کے الفاظ کی تائید کرے، اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:
الم (1) أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ (2) وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ
ترجمہ: الم ٭ کیا لوگوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ انہیں یہ کہنے پر چھوڑ دیا جائے گا کہ "ہم ایمان لائے" اور انہیں آزمایا نہیں جائے گا؟ حالانکہ یقیناً ہم نے ان سے پہلے لوگوں کو آزمایا تا کہ اللہ تعالی سچے لوگوں کو عیاں کر دے اور جھوٹے لوگوں کو بھی آشکارا کر دے۔[العنکبوت: 1 -3]
صحیح بخاری اور مسلم میں سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تم میں سے کوئی بھی صدق دل سے یہ گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں، اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اس کے بندے اور رسول ہیں، تو اللہ تعالی نے اسے جہنم پر حرام کر دیا ہے۔)
چھٹی شرط: اخلاص
اخلاص کا یہ مطلب ہے کہ عمل صالح کو کسی بھی قسم کی شرکیہ آمیزش سے پاک رکھیں، اس کی دلیل اللہ تعالی کا فرمان ہے:
أَلَا لِلَّهِ الدِّينُ الْخَالِصُ
ترجمہ: خالص عبادت صرف اللہ ہی کے لیے ہے۔ [الزمر: 3]
اسی طرح اللہ تعالی کا یہ بھی فرمان ہے:
وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ
ترجمہ: اور انہیں صرف یہی حکم دیا گیا کہ وہ یکسو ہو کر اخلاص کے ساتھ صرف اللہ کی بندگی کے لیے عبادت کریں۔[البینہ: 5]
اور صحیح حدیث میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (لوگوں میں سے میری شفاعت پانے والا خوش نصیب وہ ہے جو اپنے دل یا جان کی خوشی سے اخلاص کے ساتھ لا الہ الا اللہ کہے۔)
ساتویں شرط: محبت
یہاں اس کلمے ، اس کلمے کے تقاضے اور اس کلمے کے معانی سے محبت مراد ہے، اسی طرح ان لوگوں سے محبت بھی مراد ہے جو اس کلمے کے ماننے والے ہیں اور اس کی شرائط کو پورا کرتے ہیں، ساتھ ہی اس کے منافی امور سے بغض رکھنا بھی لازم ہے، اس کی دلیل اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْدَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَّهِ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ
ترجمہ: کچھ لوگ ایسے ہیں جو غیر اللہ کو اللہ کا شریک بناتے ہیں۔ وہ ان شریکوں کو یوں محبوب رکھتے ہیں۔ جیسے اللہ کو رکھنا چاہیے اور جو ایماندار ہیں وہ تو سب سے زیادہ اللہ ہی سے محبت رکھتے ہیں۔ [البقرۃ: 165] بندے کی اپنے رب سے محبت کی علامت یہ ہے کہ اللہ تعالی کی پسندیدہ چیز کو اپنی خواہش پر ترجیح دے، اور ایسی چیزوں کو برا سمجھے جو اللہ تعالی کے ہاں ناپسندیدہ ہیں چاہے ذاتی طور پر ان کی طرف مائل ہی کیوں نہ ہو۔ ان سے اپنا تعلق بنائے جن سے اللہ تعالی اور اس کے رسول کا تعلق ہے، اور ان سے دشمنی رکھے جن سے اللہ اور اس کے رسول کی دشمنی ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا اتباع کرے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے فرامین کی پیروی کرے اور آپ کی رہنمائی قبول کرے۔ یہ تمام علامات محبت کی شرائط ہیں، اگر ان میں سے کوئی ایک بھی شرط نہ ہو تو محبت معدوم ہوتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تین چیزیں جس میں پائی جائیں تو ان کی وجہ سے انسان ایمان کی مٹھاس پاتا ہے: اللہ اور اس کے رسول اسے سب سے زیادہ محبوب ہوں، کسی سے محبت کرے تو صرف اللہ کے لیے محبت کرے، اور جب سے اللہ نے اسے کفر سے بچایا تو وہ کفر میں واپس لوٹنا اسی طرح ناپسند کرے جس طرح اُس کو آگ میں پھینکا جانا ناپسند ہے۔) یہ روایت بخاری مسلم میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔
کچھ اہل علم نے آٹھویں شرط کا اضافہ بھی کیا ہے، وہ یہ ہے کہ جس غیر اللہ کی بھی عبادت کی جاتی ہے اس کا انکار، یعنی طاغوت کا انکار، اس کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (جس شخص نے لا الہ الا اللہ کہا اور اللہ کے سوا جس کی بھی عبادت کی جاتی ہے اس کا انکار کیا تو اس کا مال اور خون محترم ہے، اور اس کا حساب اللہ کے ذمے ہے۔) اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ اس لیے کسی بھی شخص کی جان اور مال کو تحفظ حاصل ہونے کے لیے لا الہ الا اللہ کے اقرار پر غیر اللہ کا انکار بھی لازم ہے چاہے وہ کوئی بھی ہو۔
04/08/2023
2گناہوں کا ارتکاب کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ایمان دل میں ہونا چاہیے!
کچھ لوگ داڑھی منڈوانے اور سگریٹ نوشی جیسے حرام کاموں کا ارتکاب کرتے ہیں اور جب انہیں ان غلط کاموں کو ترک کرنے کی نصیحت کی جائے تو کہتے ہیں: اللہ تعالی تمہارے جسموں کو نہیں بلکہ دلوں کو دیکھتا ہے! ہم اسے کیسے جواب دیں؟
جواب کا متن
الحمد للہ.
یہ بات بہت سے جاہل یا ناقص فہم رکھنے والے لوگ کہتے ہیں، یہ بات تو ٹھیک ہے لیکن اس صحیح بات کو کہہ کر اِن لوگوں کا ہدف غلط ہے۔ کیونکہ یہ بات کرنے والا اپنی گناہوں کے لیے دلیل پیش کرنا چاہتا ہے؛ اس لیے کہ یہ شخص صرف یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ انسان کے دل میں موجود ایمان کے ہوتے ہوئے نیکیاں کرنے اور حرام کام ترک کرنے کے کی ضرورت نہیں صرف ایمان ہی کافی ہے۔ یہ بالکل واضح غلط فہمی ہے؛ کیونکہ ایمان صرف دل میں موجود نظریہ کا نام نہیں ہے بلکہ اہل سنت والجماعت کے ہاں ایمان کی تعریف یہ ہے کہ: یہ زبان سے اقرار، دل سے اعتقاد اور اعضا سے عمل کرنے کا نام ہے۔
امام حسن بصری -اللہ ان سے راضی ہو-کہتے ہیں:
"ایمان محض اعمال سے مزین ہونے کا نام نہیں اور نہ ہی محض دل میں تمنا رکھنے کا نام ہے، ایمان تو دل میں پختہ ہو جانے والے اعتقاد کا نام ہے جس کی تصدیق اعمال کرتے ہیں۔"
گناہ کرنا اور نیکیاں چھوڑنا اس بات کی دلیل ہے کہ دل میں ایمان نہیں ہے، اور اگر ایمان ہے بھی سہی تو ناقص ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَأْكُلُوا الرِّبا
ترجمہ: اے ایمان والو! سود مت کھاؤ۔[آل عمران: 130]
اسی طرح فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ تعالی سے ڈرو اور اسی کی جانب قرب کا وسیلہ تلاش کرو، نیز اسی کی راہ میں جہاد کرو تاکہ تم فلاح پا جاؤ۔ [المائدۃ: 35]
ایسی ہی فرمایا:
مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحاً
ترجمہ: جو اللہ تعالی پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے عمل صالح کرے۔[المائدۃ: 69]
ایک اور مقام پر فرمایا:
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ
ترجمہ: یقیناً وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے۔[البقرۃ: 277]
مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحاً
ترجمہ: جو اللہ تعالی پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے عمل صالح کرے۔[البقرۃ: 62]
[یعنی ان آیات کریمہ میں ایمان کے ساتھ عمل صالح ذکر کیا گیا ہے۔ ] تو جب تک ایمان کے ساتھ عمل صالح اور گناہوں سے دوری نہ ہو تو اس وقت تک ایمان کو کامل ایمان نہیں کہا جاتا، تبھی تو اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَالْعَصْرِ* إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ* إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ
ترجمہ: قسم ہے عصر کے وقت کی ٭ بلا شبہ انسان یقینی خسارے میں ہے ٭ ما سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے، ایک دوسرے کو حق بات کی تلقین کرتے رہے اور ایک دوسرے کو صبر کرنے کی تلقین کرتے رہے۔[العصر: 1-3]
ایسے ہی فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو۔ [النساء: 59]
اسی طرح فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ اور رسول کی فرمانبرداری کرو جب وہ تمہیں زندگی بخش احکامات کی دعوت دیں۔[الانفال: 24]
مذکورہ آیات کی رو سے پتہ چلا کہ قلبی ایمان کی عدم موجودگی میں ظاہری عمل نا کافی ہو گا؛ کیونکہ یہ تو منافقوں کی خصلت ہے جنہیں آگ کے نچلے گڑھے میں رکھا جائے گا۔
اسی طرح محض قلبی ایمان بھی کافی نہیں ہے کہ زبانی اقرار اور جوارح کا عمل شامل نہ ہو؛ کیونکہ یہ جہمیہ میں سے مرجئہ وغیرہ کا موقف ہے، جو کہ باطل موقف ہے اس لیے قلبی اعتقاد، زبان سے اقرار اور جوارح کا عمل تینوں چیزیں ہونا لازمی ہے۔ گناہوں کا ارتکاب بذات خود دل میں موجود ایمان کے کمزور ہونے یا ناقص ہونے کی دلیل ہے؛ کیونکہ نیکی کرنے سے ایمان بڑھتا ہے اور نافرمانی کرنے سے کم ہوتا ہے۔
"المنتقى من فتاوى الشيخ صالح الفوزان" (1/19)
مذکورہ شخص نے جس حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اللہ تعالی تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے ، یہ روایت صحیح مسلم: (2564) میں موجود ہے کہ: (یقیناً اللہ تعالی تمہاری شکلوں اور مالوں کو نہیں دیکھتا، وہ تو تمہارے دلوں اور اعمال کو دیکھتا ہے) تو یہاں بالکل واضح ہے کہ محض قلبی اچھائی کافی نہیں بلکہ عملی اور قلبی دونوں کی اچھائی ضروری ہے، شریعت انسان کو انہی دونوں کا حکم دیتی ہے، چنانچہ مسلمان کے لیے نیک اعمال میں کوتاہی اور حرام کاموں کا ارتکاب کرنے کی گنجائش نہیں ہے، پھر مزید بر آں یہ بھی کہتا پھر کہ: اللہ تعالی دلوں کو دیکھتا ہے! نہیں بلکہ دلوں اور اعمال دونوں کو دیکھتا ہے، اسی لیے اللہ تعالی دلوں اور اعمال دونوں کا محاسبہ کرے گا۔
04/08/2023
3کیا کوئی ایسی علامات ہیں جن کی بنا پر انسان دنیا ہی میں اپنی آخرت کا انجام پہچان لے؟
جس نے اسے اسلام کی طرف رہنمائی کی ہے. ہم اللہ سے کہتے ہیں کہ وہ اسے ثابت قدم رکھے اور اس کی رہنمائی کرے جو اس دنیا اور اس کے بعد میں اس کے لئے اچھا ہے.
دوم:
اس کے فضل و کرم سے ، اللہ نے اسلام کو اس سے پہلے آنے والے گناہوں کو ختم کرنے کا سبب بنا ہے. جب کوئی کافر مسلمان ہوجاتا ہے تو ، اللہ نے ان سب کو معاف کردیا جب وہ غیر مسلم تھا ، اور وہ گناہ سے پاک ہوجاتا ہے.
مسلم ( 121 ) نے بیان کیا کہ ‘ امر ابن ال ‘ آس ( اللہ اس سے خوش ہو سکتا ہے ) کہا: جب اللہ نے اسلام کو میرے دل میں ڈال دیا, میں نبی ( اللہ کی سلامتی اور برکتیں اس پر آئیں ) اور کہا: “ مجھے اپنا دایاں ہاتھ دو تاکہ میں آپ سے بیعت کروں۔ ” اس نے اپنا ہاتھ تھام لیا اور میں نے اپنا ہاتھ واپس لے لیا. انہوں نے کہا ، “ کیا بات ہے ، O ‘ ام؟ ” میں نے کہا ، “ میں ایک شرط طے کرنا چاہتا ہوں۔ ” انہوں نے کہا ، “ آپ کیا طے کرنا چاہتے ہیں؟ ” میں نے کہا ، “ کہ مجھے معاف کردیا جائے گا۔ ” انہوں نے کہا ، “ کیا آپ نہیں جانتے کہ اسلام اس سے پہلے آنے والے کو تباہ کر دیتا ہے؟ ”
“ اسلام اس کو ختم کر دیتا ہے جو اس سے پہلے آیا تھا ” کا مطلب ہے کہ یہ اسے مٹا دیتا ہے اور اسے ختم کردیتا ہے. شارح مسلم میں الناوی نے خطاب کیا.
شیخ ابن <ٹی اے جی 1> اتھیمین <ٹی اے جی 1> اللہ پر رحم فرمایا <ٹی اے جی 1> سے اسی طرح کا سوال پوچھا گیا ، اس شخص کے بارے میں جس نے مسلمان ہونے سے پہلے منشیات میں ڈیل کرکے پیسہ کمایا تھا. اس نے جواب دیا:
ہم اس بھائی سے کہتے ہیں جسے اللہ نے حرم ( غیر قانونی ) دولت حاصل کرنے کے بعد اسلام سے نوازا ہے: خوش مزاج, کیونکہ اس دولت کے لئے اس کے لئے جائز ہے اور اس میں اس پر کوئی گناہ نہیں ہے ، چاہے وہ اسے رکھتا ہو یا اسے خیرات میں دیتا ہے ، یا شادی کے لئے استعمال کرتا ہے, کیونکہ علاءہ اپنی مقدس کتاب ( میں معنی کی ترجمانی ) میں کہتا ہے:
“ ان لوگوں کے ساتھ کہو جنہوں نے کفر کیا ہے ، اگر وہ ( کفر ) سے باز آجائیں تو ، ان کا ماضی معاف کردیا جائے گا. لیکن اگر وہ <ٹی اے جی 1> تھیریٹو <ٹی اے جی 1> واپس آجاتے ہیں تو ، ان <ٹی اے جی 1> کی مثالوں سے پہلے ہی <ٹی اے جی 1> انتباہ کے طور پر <ٹی اے جی 1> <ٹی اے جی 1> <ٹی اے جی 1>
[ al-Afaal 8:38 ]
یعنی ، وہ سب جو عام طور پر گزر چکے ہیں ، معاف کر دیا گیا ہے. لیکن جو بھی رقم اس کے مالک سے زبردستی لی گئی تھی اسے اسے واپس کرنا ہوگا. لیکن وہ رقم جو لوگوں کے مابین معاہدوں کے ذریعہ حاصل کی گئی تھی ، یہاں تک کہ اگر یہ حرم ہے ، جیسے ربا ( دلچسپی ) یا منشیات فروخت کرکے ، وغیرہ کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے. جب وہ مسلمان ہوجاتا ہے تو اس کے لئے یہ جائز ہوتا ہے کیونکہ اللہ کہتا ہے ، “ ان لوگوں کے ساتھ کہو جنہوں نے کفر کیا ہے ، اگر وہ ( کفر ) سے ختم ہوجاتے ہیں تو ، ان کا ماضی معاف ہوجائے گا ”. اور نبی ( اللہ کی سلامتی اور برکتیں اس پر ہیں ) نے ‘ امر ابن ال ‘ جب وہ مسلمان ہوا تو افسوس: “ کیا آپ نہیں جانتے کہ اسلام اس سے پہلے آنے والے کو تباہ کر دیتا ہے؟ ”
مسلمانوں کو ہلاک کرنے کے بعد بہت سے غیر مسلم مسلمان مسلمان بن گئے ، لیکن انہیں ان کے کیے جانے کی سزا نہیں دی گئی. تو اس بھائی سے کہو کہ اس کی دولت جائز ہے اور اس میں کوئی گناہ نہیں ہے۔ وہ اسے خیرات میں دے سکتا ہے اور شادی کے ل use اسے استعمال کرسکتا ہے. جہاں تک اسے اس کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ اس کے لئے خیرات میں دینے کے لئے جائز نہیں ہے ، اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے. اختتامی اقتباس.
04/08/2023
4اسلام اور ایمان میں فرق
اسلام اور ایمان میں کیا فرق ہے؟ اس بارے میں علمائے کرام نے عقائد کی کتب میں بہت تفصیلات ذکر کی ہیں، ان تفصیلات کا خلاصہ یہ ہے کہ جب یہ لفظ الگ الگ ذکر ہوں تو پھر ہر ایک کا مطلب پورا دین اسلام ہوتا ہے، تو اس وقت لفظ اسلام ہو یا ایمان ان میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔
اور اگر یہ دونوں الفاظ ایک ہی سیاق اور جملے میں مذکور ہوں تو پھر ایمان سے باطنی یا روحانی اعمال مراد لیے جاتے ہیں، جیسے کہ قلبی عبادات، مثلاً: اللہ تعالی پر ایمان، اللہ تعالی سے محبت، خوف، امید، اور اللہ تعالی کے لیے اخلاص وغیرہ۔
اور اسلام سے مراد ظاہری اعمال ہوتے ہیں کہ بسا اوقات جن کے ساتھ قلبی ایمان کبھی ہوتا ہے، اور کبھی نہیں ہوتا،تو دوسری صورت میں ان ظاہری اعمال کو کرنے والا یا تو منافق ہوتا ہے یا پھر منافق تو نہیں ہوتا لیکن اس کا ایمان کمزور ہوتا ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"لفظ "ایمان" کو بسا اوقات اسلام یا عمل صالح کے ساتھ ملا کر ذکر نہیں کیا جاتا بلکہ وہ بالکل الگ تھلگ ہوتا ہے، اور بسا اوقات لفظ "ایمان" کو اسلام کے ساتھ ملا کر ذکر کیا جاتا ہے جیسے کہ حدیث جبریل علیہ السلام میں ہے کہ: (اسلام کیا ہے؟۔۔۔ اور ایمان کیا ہے؟۔۔۔) اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے:
(إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ)
ترجمہ: بیشک مسلمان مرد اور مسلمان خواتین، اور مومن مرد اور مومن خواتین [الأحزاب:35]
اسی طرح ایک اور جگہ فرمایا:
(قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ)
ترجمہ: خانہ بدوشوں نے کہا: ہم ایمان لے آئے، آپ کہہ دیں کہ: تم ایمان نہیں لائے، تاہم تم کہو: ہم اسلام لے آئے ہیں، ابھی تو ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے۔ [الحجرات:14]
نیز فرمایا:
(فَأَخْرَجْنَا مَنْ كَانَ فِيهَا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ . فَمَا وَجَدْنَا فِيهَا غَيْرَ بَيْتٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ)
ترجمہ: تو ہم نے ان میں سے جو بھی مومن تھے انہیں وہاں سے نکال دیا، تو ہمیں اس میں مسلمانوں کے ایک گھرانے کے علاوہ کچھ نہ ملا۔ [الذاريات:36]
تو ان آیات میں جب ایمان کو اسلام کے ساتھ ذکر فرمایا تو :
اسلام سے مراد ظاہری اعمال لیے، مثلاً: شہادتین کا اقرار، نماز، زکاۃ، روزہ، حج وغیرہ
اور ایمان سے مراد قلبی امور لیے ، مثلاً: اللہ تعالی پر ایمان، فرشتوں، کتابوں، رسولوں اور آخرت کے دن پر ایمان۔
تاہم جب ایمان کا لفظ اکیلا ذکر کیا جائے تو اس میں اسلام اور اعمال صالحہ سب شامل ہوتے ہیں، جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ایمان کے درجات بیان کرنے والی حدیث میں فرمان ہے: (ایمان کے ستر سے زائد درجات ہیں، ان میں سب سے اعلی درجہ لا الہ الا اللہ کہنا، اور سب سے چھوٹا درجہ راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا ہے)
تو یہی طریقہ کار دیگر تمام احادیث کے ساتھ اپنایا جائے گا جن میں نیکی کے کاموں کو ایمان کا حصہ بتلایا گیا ہے" اختصار کے ساتھ اقتباس مکمل ہوا
"مجموع الفتاوى" (7/13-15)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جب [لفظ ایمان اور اسلام] دونوں اکٹھے ذکر ہوں تو پھر اسلام سے مراد ظاہری اعمال مراد لیے جاتے ہیں جس میں زبان سے ادا ہونے والے کلمات، اور اعضا سے ہونے والے اعمال شامل ہیں اور یہ کلمات اور اعمال کامل ایمان والا مومن یا کمزور ایمان والا مومن بھی کر سکتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
(قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ)
ترجمہ: خانہ بدوشوں نے کہا: ہم ایمان لے آئے، آپ کہہ دیں کہ: تم ایمان نہیں لائے، تاہم تم کہو: ہم اسلام لے آئے ہیں، ابھی تو ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے۔ [الحجرات:14]
اور اسی طرح منافق شخص ہے کہ اسے ظاہری طور پر تو مسلمان کہا جاتا ہے لیکن وہ باطنی طور پر کافر ہے۔
اور ایمان سے مراد باطنی یا قلبی امور لیے جاتے ہیں اور یہ کام صرف وہی شخص کرتا ہے جو حقیقی مومن ہو، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ (2) الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ (3) أُولَئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا لَهُمْ
ترجمہ: حقیقی مومن تو وہی ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب ان پر اس کی آیات پڑھی جائیں تو انہیں ایمان میں بڑھا دیتی ہیں اور وہ اپنے رب ہی پر بھروسا رکھتے ہیں۔ [2] وہ لوگ جو نماز قائم کرتے ہیں اور اس میں سے جو ہم نے انہیں دیا، خرچ کرتے ہیں [3] یہی لوگ سچے مومن ہیں، انہی کے لیے ان کے رب کے پاس بہت سے درجے اور بڑی بخشش اور با عزت رزق ہے۔ [الأنفال: 2 - 4]
تو اس اعتبار سے ایمان کا درجہ اعلی ہو گا، لہذا ہر مومن مسلمان ہے لیکن ہر مسلمان مومن نہیں ہے" ختم شد
"مجموع فتاوى ورسائل ابن عثیمین" (4/92)
اب سوال میں مذکور آیت کا مفہوم اس توجیہ کے موافق ہے کہ لوط علیہ السلام کے گھر والوں کو ایک بار ایمان سے موصوف کیا گیا تو دوسری بار اسلام سے ۔
تو یہاں پر اسلام سے مراد ظاہری امور مراد ہیں اور ایمان سے مراد قلبی اور حقیقی ایمان مراد ہے، لہذا جب اللہ تعالی نے لوط علیہ السلام کے تمام گھرانے والوں کا ذکر کیا تو انہیں ظاہری اعتبار سے اسلام کے ساتھ موصوف فرمایا ؛ کیونکہ لوط علیہ السلام کی بیوی بھی آپ کے گھرانے میں شامل تھی اور وہ ظاہری طور پر مسلمان تھی، لیکن حقیقت میں کافر تھی، اسی وجہ سے جب اللہ تعالی نے عذاب سے بچنے والے اور نجات پا جانے والے لوگوں کا ذکر فرمایا تو انہیں ایمان سے موصوف فرمایا اور کہا:
(فَأَخْرَجْنَا مَنْ كَانَ فِيهَا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ . فَمَا وَجَدْنَا فِيهَا غَيْرَ بَيْتٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ)
ترجمہ: تو ہم نے ان میں سے جو بھی مومن تھے انہیں وہاں سے نکال دیا، تو ہمیں اس میں مسلمانوں کے ایک گھرانے کے علاوہ کچھ نہ ملا۔ [الذاريات:36]
اس بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"لوط علیہ السلام کی بیوی باطنی طور پر منافق اور کافر تھی، تاہم اپنے خاوند کے ساتھ ظاہری طور پر مسلمان تھی، یہی وجہ ہے کہ اسے بھی قوم لوط کے ساتھ عذاب سے دوچار کیا گیا، تو یہی حال نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ موجود منافقین کا ہے کہ وہ ظاہری طور پر آپ تو صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ مسلمان تھے لیکن باطن میں مومن نہیں تھے" ختم شد
"جامع المسائل" (6/221)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ مزید کہتے ہیں کہ:
"کچھ لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ اس آیت کا تقاضا یہ ہے کہ ایمان اور اسلام دونوں ایک ہی چیزیں ہیں، اور ان آیتوں کو باہمی طور پر متعارض قرار دیا۔
حالانکہ معاملہ ایسے نہیں ہے، بلکہ یہ آیت پہلی آیت کے ساتھ موافقت رکھتی ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی نے یہ بتلایا کہ اللہ تعالی نے وہاں پر جو بھی مومن تھا اسے نکال لیا اور مسلمانوں کا وہاں ایک ہی گھر پایا؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوط علیہ السلام کی بیوی لوط علیہ السلام کے گھرانے میں موجود تھی لیکن وہ ان لوگوں میں شامل نہیں جنہیں نکال لیا گیا اور نجات پا گئے تھے، بلکہ وہ عذاب میں مبتلا ہونے والے اور پیچھے رہ جانے والوں میں شامل تھی۔ لوط علیہ السلام کی بیوی ظاہری طور پر تو اپنے خاوند کے ساتھ تھی لیکن باطنی طور پر وہ اپنی قوم کے دین پر تھی، اور اپنے خاوند کو دھوکا دے رہی تھی کہ اس نے اپنی قوم کو آنیوالے مہمانوں کے بارے میں مطلع کر دیا، جیسے کہ اس چیز کا ذکر اللہ تعالی نے یوں فرمایا کہ:
( ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا لِلَّذِينَ كَفَرُوا امْرَأَتَ نُوحٍ وَامْرَأَتَ لُوطٍ كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَيْنِ فَخَانَتَاهُمَا )
ترجمہ: [ التحريم:10]
اور جس خیانت کا ذکر اللہ تعالی نے فرمایا ہے یہ ان دونوں عورتوں کی جانب سے دینی خیانت تھی پاکدامنی سے متعلق نہیں تھی۔ بہ ہر حال مقصود یہ ہے کہ لوط علیہ السلام کی بیوی مومن نہیں تھی، نہ ہی وہ ان لوگوں میں شامل تھی جنہیں عذاب سے نکال کر نجات دے دی گئی، لہذا وہ اللہ تعالی کے اس فرمان : (فَأَخْرَجْنَا مَنْ كَانَ فِيهَا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ) تو ہم نے ان میں سے جو بھی مومن تھے انہیں وہاں سے نکال دیا [الذاريات:36]میں شامل نہیں ہے، اور چونکہ وہ ظاہری طور پر مسلمان تھی اس لیے وہ اللہ تعالی کے فرمان : (فَمَا وَجَدْنَا فِيهَا غَيْرَ بَيْتٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ) تو ہمیں اس میں مسلمانوں کے ایک گھرانے کے علاوہ کچھ نہ ملا۔ [الذاريات:36] میں شامل ہے۔
یہاں یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ قرآن کریم کسی بھی چیز کو بیان کرنے میں انتہائی باریکی اختیار کرتا ہے کہ جب لوگوں کو عذاب سے بچانے کا ذکر کیا تو وہاں پر مومنین کا لفظ بولا، لیکن جب وجود اور عدم وجود کی بات آئی تو وہاں مسلمین کا لفظ بولا" ختم شد
"مجموع الفتاوى " (7/472-474)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اللہ تعالی نے لوط علیہ السلام کے واقعے میں فرمایا:
(فَأَخْرَجْنَا مَنْ كَانَ فِيهَا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ . فَمَا وَجَدْنَا فِيهَا غَيْرَ بَيْتٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ)
ترجمہ: تو ہم نے ان میں سے جو بھی مومن تھے انہیں وہاں سے نکال دیا، تو ہمیں اس میں کوئی ایک گھر کے سوا مسلمانوں کا کوئی گھر نہ ملا۔ [الذاريات:36]
اللہ تعالی نے یہاں پر مومنین اور مسلمین میں فرق کیا ہے؛ کیونکہ اس بستی میں ظاہری طور پر یہی ایک گھرانہ تھا جو اسلامی تھا[مکمل ایمانی نہیں تھا]؛ کیونکہ اس گھرانے میں لوط علیہ السلام کی بیوی بھی تھی جس نے لوط علیہ السلام کو ظاہری اسلام دکھا کر دھوکا دیا ہوا تھا، حالانکہ وہ اندر سے کافر تھی، چنانچہ جن لوگوں کو نکالا گیا اور نجات دی گئی تو وہ لوگ ہی حقیقی مومن تھے کہ جن کے دلوں میں حقیقی طور پر ایمان داخل ہو چکا تھا۔" ختم شد
"مجموع فتاوى و رسائل ابن عثیمین"
04/08/2023
5اللہ تعالی کی ذات کے متعلق شیطانی وسوسوں سے دوچار
جو مشکل سائل نے ذکر کی ہے اور اسکے نتائج سے خوفزدہ ہے اس کے متعلق میں یہ کہتا ہوں کہ آپ کو خوشی ہونی چاہئے کہ اس کے ان شاء اللہ اچھے نتائج برآمد ہونگے، کیونکہ ان وسوسوں سے ہی شیطان مومنوں پر حملہ آور ہوتا ہے تاکہ وہ انکے دلوں میں جو عقیدہ صحیحہ اور سلیمہ ہے اسے متزلزل کرے اور انہیں فکری اور نفسیاتی طور پر پریشان کرے جس کے ساتھ ان کے ایمان کو خراب اور میلا کرنے کی کوشش کرتا ہے بلکہ اگر وہ مومن ہیں تو انکی زندگی مکدر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
اور اس سائل کی ہی یہ پہلی حالت نہیں اور نہ ہی یہ آخری حالت ہے بلکہ جب تک دنیا میں ایک بھی مومن باقی ہے یہ حالت باقی رہے گی اور اس طرح کے وسوسے پیدا ہوتے رہیں گے، اور پھر یہ حالت تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی پیش آتی رہی ۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث مروی ہے کہ چند صحابہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر سوال کرنے لگے کہ ہم اپنے نفسوں میں ایسی باتیں اور وسوسے پاتے ہیں جو کہ زبان پر لانی بہت مشکل ہیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا واقعی حقیقتا آپ لوگوں نے ایسا پایا ہے؟ تو انہیں نے کہا جی ہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہی صریح اور واضح ایمان ہے۔صحیح مسلم-
صحیح بخاری اور مسلم میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی حدیث مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم میں سے کسی ایک کے پاس آکر شیطان یہ کہتا ہے کہ تیرے رب کو کس نے پیدا کیا؟ یہ کس نے پیدا کیا ؟ حتی کہ وہ یہ کہتا ہے کہ تیرے رب کو کس نے پیدا کیا؟ تو جب یہاں تک پہنچ جائے وہ اللہ تعالی کی پناہ میں آئے اور اس کے کہنے سے باز رہے)۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا اور یہ کہنے لگا کہ میں اپنے نفس میں ایسی چیز پاتا ہیں اسکے کہنے سے مجھے یہ زیادہ پسند ہے کہ میں کوئلہ اور راکھ بن جاؤں، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: (اس اللہ تعالی کی تعریفات ہیں جس نے اس کے معاملے کو وسوسے کی طرف لوٹادیا) سنن ابو داوود
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کتاب الایمان میں فرمایا ہے کہ: اور مومن شیطانی وسوسوں جو کہ کفر ہوتے اور ان سے سینہ تنگ ہوجاتا ہے سے آزمایا جاتا ہے، جیسا کہ صحابہ کرام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا تھا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے کوئی ایک ایسی بات اپنے نفس میں پاتا ہے کہ اس زبان پر لانے سے بہتر ہے کہ وہ آسمان سے زمین پر گر پڑے، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہی صریح ایمان ہے۔
اور دوسری روایت میں ہے (کہ زبان پر لانی بہت مشکل ہیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس اللہ تعالی کی تعریفات ہیں جس نے اس کے مکر کو وسوسے کی طرف لوٹا دیا) یعنی اس وسوسے کا حصول اتنی زیادہ کراہت کے ساتھ اور اسے دلوں سے نکال پھینکنا ہی صرح ایمان ہے، اس مجاہد کی طرح جس کے پاس اسکا دشمن آیا تو اس نے اسکے ساتھ لڑائی کی حتی کہ اس پر غالب آگیا تو یہ بہت عظیم جہاد ہے ۔
حتی کہ شیخ الاسلام نے یہاں تک فرمایا کہ اسی لئے طالب علموں اور عبادت گزاروں کے دلوں میں ایسے وسوسے اور شبہات پائے جاتے ہیں جو دوسروں کے ذہنوں میں نہیں ہوتے، کیونکہ (دوسرے) اللہ تعالی کی شرع اور اس کے طریقے پر نہیں چلے بلکہ وہ اپنی خواہشات اور اللہ تعالی کے ذکر سے غافل ہیں اور شیطان تو یہی چاہتا ہے ان لوگوں کے خلاف جو کہ اپنے رب کی طرف علم وعبادت کے ساتھ متوجہ ہوتے ہیں تو شیطان انکا دشمن ہے اور ان سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اللہ تعالی سے دور رہیں) اھ اس سے جو مقصود ہے وہ صفحہ نمبر 147طبع انڈیا میں ذکر کیا ہے۔
میں اس سائل سے کہتا ہوں کہ: جبکہ اب آپ کے سامنے یہ واضح ہوچکا ہے کہ یہ شیطانی وسوسےہیں تو اس سے پوری طاقت کے ساتھ نبرد آزما ہو جاؤ اور اس مشقت کو برداشت کرو اور آپکو یہ علم ہونا چاہئے کہ اگر آپ اس سے اعراض اور اسکے خلاف کوشش کرتے رہیں گے تو یہ آپ کو نقصان نہیں دے سکتا اور آپ اس کے پیچھے تیزی کے ساتھ چلنے سے باز رہیں، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے (بیشک اللہ تعالی نے میری امت کے ان وسوسوں کو معاف کردیا ہے جو کہ ابھی سینوں میں ہی ہیں جب تک کہ ان پر عمل نہ کیا جائے اور یا پھر اس کو زبان پر نہ لایا جائے)۔ صحیح بخاری اور مسلم۔
اور اگر آپ کو یہ کہا جائے کہ: کیا آپ کو جو وسوسہ ہے اسکا عقیدہ رکھتے ہيں؟ اور کیا آپ اسے حق سمجھتے ہیں؟ اور کیا یہ ممکن ہے کہ آپ اللہ تعالی کو اس سے متصف کریں؟ تو آپ کا جواب یہی ہوگا یہ ہمارے لائق ہی نہیں کہ ہم ایسی باتیں کریں۔ اے اللہ تو ان عیبوں سے پاک ہے اور یہ بہتان عظیم ہے اور آپ اسکا انکار دل وجان اور زبان سے بھی کریں گے، اور آپ لوگوں میں سے اس بات سے سب سے زیادہ نفرت کرنے والے ہونگے، تو پھر یہ صرف شیطانی وسوسے اور خطرات ہیں جو کہ آپ کے دل میں پیش آ رہے ہیں، اور شیطان کی طرف سے شرک کا ارادہ ہے جو کہ انسان میں خون کی طرح گردش کرتا ہے تاکہ آپ پر دین اسلام کو خلط ملط کرے اور ہلاکت میں ڈالے۔
اور اسی لئے آپ گھٹیا اور حقیر چیزوں کے متعلق شیطان کو اپنے دل میں شک اور طعن ڈالتے ہوئے نہیں پائیں گے، تو مثلا آپ یہ سنتے ہیں کہ مشرق ومغرب میں بہت سے شہر ہیں جو کہ آبادی اور عمارتوں کے لحاظ سے بھرے پڑے ہیں تو کبھی بھی آپ کے دل میں انکی موجودگی کے متعلق شک نہیں ابھرا اور نہ انکے خراب ہونے کے متعلق ذہن میں آیا ہے کہ یہ رہنے کے قابل نہيں اور نہ ہی اس میں کوئی رہتا ہے وغیرہ۔ کیونکہ شیطان کو ان چیزوں سے غرض نہیں کہ وہ ان انسان کو ان چیزوں کے متعلق شک میں ڈالتا پھرے لیکن مومن کے ایمان کو خراب کرنے میں شیطان کی بہت بڑی غرض ہے تو وہ اسے خراب کرنے کے لئے اپنے پیدل اور سوار دستوں کے ساتھ ایڑی چوٹی کا زور لگاتا ہے تاکہ وہ علم اور ہدایت کے نور کو اس کے دل سے ختم کرسکے، اور اسے شک وحیرانی کے اندھیروں میں گراسکے-
تو اس کے علاج کیلئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لئے ایسی ناجح اور شفایابی سے نوازنے والی دوا بیان کی ہے کہ (وہ اللہ تعالی کی پناہ طلب کرے اور اس سے رک جائے) تو اگر انسان اس سے رکا اور جو اللہ تعالی کے پاس ہے اسکی رغبت اور اسے طلب کرتے ہوئے اللہ تعالی کی عبادت میں مشغول رہتا ہے تو یہ اللہ کے حکم سے یہ چیز اس سے زائل ہو جاتی ہے۔
تو اس موضوع کے متعلق جو بھی آپکے دل میں سوچیں آتی ہیں ان سے اعراض کریں اور اللہ تعالی کی عبادت اور اس سے دعا کرنے اور اسکی تعظیم میں مشغول رہیں۔
اور اگر وہی وسوسے جو کہ آپ پاتے ہیں کسی کو کہتے ہوئے سنیں تو اگر ممکن ہو تو آپ اسے قتل کردینگے تو اس لئے جو آپ کو وسوسے آتے ہیں انکی کوئی حقیقت نہیں بلکہ وہ ایسے خیالات اور وسوسے ہیں جنکی کوئی اصل ہی نہیں ہے۔
اورنصیحت کا خلاصہ مندرجہ ذیل ہے۔
1- ان چیزوں اور خیالات سے مکمل طور پر رک جانا اور اللہ تعالی کی پناہ طلب کرنا جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے۔
2- اللہ تعالی کا ذکر اور ان وسوسوں کے بار بار پیدا ہونے سے بچنا۔
3- عبادت میں انہماک اور اللہ تعالی کے احکام پر عمل اور اسکی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرنا تو جب بھی آپ پورے انہماک اور دلجمعی سے عبادت کرینگے تو ان وسوسوں کو بھول جائینگے ان شاء اللہ۔
4- اللہ تعالی کی طرف کثرت سے رجوع اور اس معاملے سے عافیت طلب کرنی۔
میں آپ کیلئے اللہ تعالی سے ہر برائی اور غلط کام سے عافیت اور سلامتی طلب کرتا ہوں.
04/08/2023
6اللہ تعالي كي اپنےبندوں پر رحمت
اللہ سبحانہ وتعالي بڑا مہربان اور نہائت رحم كرنےوالا ہے، اور وہ سب رحم كرنےوالوں سےزيادہ رحم كرنےوالا ارحم الراحمين ہے، جس كي رحمت ہر چيز پر وسيع ہے.
اللہ سبحانہ وتعالي كا فرمان ہے:
اورميري رحمت ہر چيز كو وسيع ہے الاعراف ( 156 ).
اور صحي مسلم ميں ابوہريرہ رضي اللہ تعالي عنہ سےحديث مروي ہے كہ: رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نےفرمايا:
( اللہ كےلئےسورحمتيں ہيں ان ميں سےايك رحمت نازل فرمائي ہے جس كےساتھ جن وانس اور جانور اور چوپائے اور كيڑے مكوڑے ايك دوسرے پر رحم اور نرمي كرتےہيں، اور اللہ تعالي نے ننانويں رحمتيں اپنےلئےركھيں جن كےساتھ وہ روز قيامت اپنےبندوں پر رحم كرےگا ) صحيح مسلم ( 6908 ) .
اور عمر بن خطاب رضي اللہ تعالي عنہ بيان كرتےہيں كہ:
( رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم كےپاس كچھ قيدي لائےگئے اور ان قيديوں ميں سےايك عورت كچھ تلاش كررہي تھي كہ اس نے قيديوں ميں بچہ پايا تواسے لےكر اپنے سينے سےچمٹايا اور دودھ پلانےلگي، تو رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نےہميں فرمايا: كيا تمہارےخيال ميں يہ عورت اپنےبيٹے كو آگ ميں ڈال دےگي؟ تو ہم نے عرض كيا اللہ كي قسم نہيں، وہ اس پر قادر ہے كہ اسے آگ ميں نہيں ڈالے، تو رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نےفرمايا:
اللہ تعالي اپنےبندوں كےساتھ اس عورت كےاپنےبيٹےپررحم كرنےسےبھي زيادہ رحم كرنےوالا ہے ) صحيح بخاري ( 5653 ) صحيح مسلم ( 69121 ) .
اور اللہ تعالي كي اپنےبندوں پر رحمت ہي ہےكہ اس نے رسول مبعوث كئے اور كتابيں اور شريعتيں نازل فرمائيں تاكہ ان كي زندگي سنور سكےاور وہ تنگي وتكليف اور گمراہي سے رشد وہدايت كي طرف نكل آئيں.
فرمان باري تعالي ہے:
اور ہم نےآپ كو سب جہانوں كےلئےرحمت بنا كر بھيجا ہےالانبياء ( 107 ) .
اوراللہ تعالي كي رحمت ہي روز قيامت اس كےمومن بندوں كو جنت ميں داخل كرے گي، كوئي شخص بھي اپنےاعمال كي بنا پر جنت ميں داخل نہيں ہوگاجيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نےفرماياہے:
( كسي شخص كوبھي اس كا عمل جنت ميں داخل نہيں كرےگا، صحابہ كرام نےعرض كيا اے اللہ كےرسول صلى اللہ عليہ وسلم آپ بھي نہيں؟ تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نےفرمايا:
ميں بھي نہيں الا يہ كہ اللہ تعالى مجھے اپنےفضل اور رحمت سے ڈھانپ لے، لھذا درميانہ راہ اختيار كرواور افراط وتفريط سےبچو، اور تم ميں سے كوئي بھي موت كي تمنا نہ كرے اگر تووہ نيكي كرنےوالا ہے تو خيروبھلائي زيادہ كرے گا اوراگر گنہگار ہے تو ہوسكتا ہے توبہ كرلے ). صحيح بخاري حديث نمبر ( 5349 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 7042 ) .
اور مومن شخص كو چاہئےكہ وہ اللہ تعالي سےاس كي رحمت اميد اور اس كےعذاب كا خوف ركھےاسےان دونوں كےمابين رہنا چاہئے، كيونكہ اللہ تعالي كا فرمان ہے:
ميرے بندوں كو بتا دو كہ ميں بخشنےوالا اور رحم كرنےوالا ہوں، اور ميرا ساتھ ہي ميرا عذاب ہي دردناك عذاب ہے الحجر ( 49 - 50 ).
اور آپ كا يہ كہنا كہ " اللہ تعالي ہمارے ساتھ ايك ماں كا اپنےبچے سے محبت كرنےسےسترگناسےبھي زيادہ محبت كرتا ہے" اس كےبارہ ميں اللہ ہي زيادہ علم ركھتا ہے، ہمارےلئےاتنا ہي جاننا كافي ہے كہ اللہ تعالي كي رحمت ہر چيز كو وسيع ہے، اے اللہ اپني رحمت كےساتھ ہم پر رحم فرما تو سب رحم كرنے والوں سےزيادہ رحم كرنےوالا ہے.
04/08/2023
7کفار پوچھتے ہیں کہ اللہ تعالی کو کس نے پیدا کیا ہے
1- کفار کی طرف سے آپ کو یہ سوال کرنا اصولی طور پر باطل اور سوال کے نفس کے اعتبار سے بھی اس میں تناقض ہے ۔
وہ اس طرح کہ اگر بالفرض محال اور جدلی طریقے پر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالی کا کوئی خالق ہے تو سائل کہے گا کہ اسے پیدا کرنے والے کے خالق کو کس نے پیدا کیا ؟؟ پھر پیدا کرنے والے کے خالق کے خالق کو کس نے پیدا کیا ؟؟ تو اس طرح ایک ایسا سلسلہ چل نکلے گا جس کی کوئی انتہاء نہیں – تو یہ عقلی طور پر بھی محال ہے ۔
تو یہ کہنا کہ مخلوق ہر چیز کے خالق پر جا کر ختم ہو جائے اور اس خالق کو کسی نے پیدا نہیں کیا بلکہ وہ اپنے سوا سب کا خالق ہے تو یہ تو عقل اور منطق کے موافق ہے اور وہ خالق اللہ تعالی ہے ۔
2- اور شرعی اور ہمارے دینی اعتبار سے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس سوال کے متعلق بتایا ہے کہ یہ سوال کہاں سے نکلا اور آیا اور اس کا علاج اور رد کیا ہے ۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ہمیشہ ہی لوگ ایک دوسرے سے سوال کرتے رہیں گے حتی کہ یہ کہا جائے گا یہ اللہ تعالی نے پیدا کیا ہے تو اللہ تعالی کو کس نے پیدا کیا ؟ تو جو شخص ایسا ( اپنے ذہن میں ) پآئے وہ یہ کہے میں اللہ تعالی پر ایمان لایا ۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( تم میں سے کسی ایک کے پاس شیطان آکر کہتا ہے آسمان کس نے پیدا کیا ؟ زمین کس نے پیدا کی ؟ تو وہ کہے گا کہ اللہ تعالی نے پھر اس طرح ہی ذکر کیا اور یہ زیادہ کیا اس کے رسولوں کو )
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ( تم میں سے کسی ایک کے پاس سیطان آکر کہتا ہے کہ یہ یہ چیز کس نے پیدا کی ہے حتی کہ وہ اسے کہتا ہے کہ تیرے رب کو کس نے پیدا کیا ؟ تو جب معاملہ یہاں تک جا پہنچے تو وہ اللہ تعالی کی پناہ طلب کرے اور اس سے رک جائے)
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( شیطان بندے کے پاس آکر کہتا ہے اس کو کس نے پیدا کیا ؟)
ان سب احادیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے (134)
تو ان حادیث میں مندرجہ ذیل بیان ہے :
اس سوال کا مصدر اور پیدا ہونے کی جگہ اور شیطان ہے ،
اس کا علاج اور اس کا رد یہ ہے کہ:
1- کہ وہ خطرات اور شیطان کی تلبیس یعنی حقیقت کو چھپانے کے پیچھے نہ چلے ۔
2- وہ یہ کہے کہ میں اللہ تعالی اور اس کے رسول پر ایمان لایا ۔
3- شیطان سے اللہ تعالی کی پناہ طلب کرے ۔
اور حدیث میں بائیں طرف تین دفعہ تھوکنے اور سورۃ الاخلاص (قل ہو اللہ احد) پڑھنے کا بھی آیا ہے ( دیکھیں کتاب شکاوی وحلول اسی ویپ سائٹ پر کتابوں کے عنوان میں )
3-اور رہی یہ بات کہ اللہ تعالی کا پہلے سے موجود ہونا تو اس کے متعلق ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی خبریں ہیں :
1- نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول اے اللہ تو اول ہے تجھ سے قبل کوئی چیز نہیں اور تو آخر ہے تیرے بعد کوئی چیز نہیں ۔
صحیح مسلم حدیث نمبر (2713)
3- نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد : اللہ تعالی تھا تو اس کے علاوہ کوئی چیز نہیں تھی ،
اور ایک روایت میں ہے کہ اور اس سے قبل کوئی چیز نہیں تھی ۔
صحیح بخاری حدیث نمبر پہلی (3020) دوسری (6982)اس اضافہ کے ساتھ جو کہ اس موضوع میں قرآن کریم میں آیات بینات ہیں ۔
تو مومن کو چاہۓ کہ وہ ایمان لآئے اور شک نہ کرے اور کافر انکار کرتا اور منافق شک وشبہ رکھتا ہے ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمیں ایسا سچا ایمان اور یقین دے کہ جس میں کسی قسم کا شک نہ ہو آمین ۔
اور اللہ تعالی ہی توفیق دینے والا ہے ۔
04/08/2023
8اللہ تعالی عرش پر مستوی اور اپنے علم کے ساتھ وہ ہمارے قریب ہے
کتاب وسنت اور امت کے سلف سے یہ ثابت ہے کہ اللہ تعالی اپنے آسمانوں کے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہے اور وہ بلند و بالا اور ہر چیز کے اوپر ہے اس کے اوپر کوئی چیز نہیں ۔
فرمان باری تعالی ہے :
< اللہ تعالی وہ ہے جس نے آسمان وزمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان سب کو چھ دنوں میں پیدا کر دیا پھر عرش پر مستوی ہوا تمہارے لۓ اس کے سوا کوئی مدد گار اور سفارشی نہیں کیا پھر بھی تم نصیحت حاصل نہیں کرتے >
ارشاد باری تعالی ہے :
< بلاشبہ تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر عرش پر مستوی ہوا وہ ہر کام کی تدبیر کرتا ہے >
< تمام تر ستھرے کلمات اسی کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل کو بلند کرتا ہے >
فرمان باری تعالی ہے :
وہی پہلے ہے اور وہی پیچھے ، وہی ظاہر ہے اور وہی مخفی ہے >
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ( اور ظاہر ہے تیرے اوپر کوئی چیز نہیں )
اس معنی میں آیات اور احادیث ہیں اس کے باوجود اللہ تعالی نے خبر دی ہے کہ وہ اپنے بندوں کے ساتھ ہے وہ جہاں بھی ہوں ۔
فرمان باری تعالی ہے :
< کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ اللہ تعالی آسمانوں اور زمین کی ہر چیز سے واقف ہے تین آدمیوں کی سرگوشی نہیں ہوتی مگر اللہ ان کا چوتھا ہوتا ہے اور نہ ہی پانچ کی مگر وہ ان کا چھٹا ہوتا ہے اور نہ اس سے کم اور نہ زیادہ کی مگر وہ جہاں بھی ہوں وہ ساتھ ہوتا ہے >
بلکہ اللہ تعالی نے اپنے عرش پر بلند ہونے اور بندوں کے ساتھ اپنی معیت کو ایک ہی آیت میں اکٹھا ذکر کیا ہے ۔ فرمان بار تعالی ہے:
< وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر عرش پر مستوی ہو گیا وہ اس چیز کو جانتا ہے جو زمین میں جائے اور جو اس سے نکلے اور جو آسمان سے نیچے آۓ اور جو کچھ چڑھ کر اس میں جائے اور جہاں کہیں بھی تم ہو وہ تمہارے ساتھ ہے >
تو اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ وہ مخلوق کے ساتھ خلط ملط ہے بلکہ وہ اپنے بندوں کے ساتھ علم کے اعتبار سے ہے اور اس کے عرش پر ہونے کے باوجود ان کے اعمال میں سے اس پر کوئی چیز مخفی نہیں ۔
اللہ تعالی کا یہ فرمان کہ : < اور ہم اس کی رگ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں >
تو اکثر مفسرین نے اس کی تفسیر میں یہ کہا ہے کہ : اللہ تعالی کا یہ قریب ان فرشتوں کے ساتھ ہے جن کے ذمہ ان کے اعمال کی حفاظت لگائی گئ ہے اور جس نے اس کی تفسیر اللہ تعالی کہ قرب کی ہے وہ اس اللہ تعالی کے علم کے ساتھ قریب ہے جس طرح کی معیت میں ہے ۔
اہل سنت والجماعت کا مذہب یہ ہے کہ وہ اللہ تعالی کو اس کی مخلوق پر بلندی اور معیت کو ثابت کرتے ہیں اور مخلوق میں حلول سے اللہ تعالی کو پاک قرار دیتے ہیں ۔ لیکن معطلۃ یعنی جہمیہ اور ان کے پیروکار اللہ تعالی کی مخلوق پر اس کے علو اور اس کے عرش پر مستوی ہونے کا انکار کرتے اور وہ یہ کہتے کہ اللہ تعالی ہر جگہ پر ہے
04/08/2023
9ایک عیسائی کا سوال ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کو کیوں پیدا کیا ؟
اللہ تعالی نے جنوں اور انسانوں کو اپنی عبادت اور توحید اور اللہ تعالی کے حکموں کو ماننے اور اس کی منہیات سے بچنے کے لئے پیدا فرمایا ہے۔
فرمان باری تعالی ہے:
"اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے"
یعنی اس کی توحید بیان کرنے اور عبادت میں صرف اسے اکیلا ماننے کےلئے کسی اور کو نہیں، عبادت کے صحیح ہونے کی شرط یہ ہے کہ اللہ تعالی کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان اور ان کی اتباع کی جائے کیونکہ وہ نمونہ اور آئیڈیل اور قدوہ ہیں۔
فرمان باری تعالی ہے:
"یقینا تمہارے لئے رسول اللہ عمدہ نمونہ ہیں"
04/08/2023
10قرآن مجید اللہ تعالی کی طرف سے نازل کردہ اور غیر مخلوق ہے
ہم مسلمانوں پر واجب ہے کہ ہمارا یہ عقیدہ ہونا چاہۓ کہ وہ اللہ تعالی کی طرف سے نازل شدہ ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بتایا ہے اور اللہ تعالی نے بھی یہ خبر دی ہے کہ وہ کلام کرتا ہے ۔
ارشاد باری تعالی ہے :
< اور اللہ تعالی سے زیادہ سچی بات والا اور کون ہو گا > النساء / 87
اور فرمان باری تعالی ہے :
< اور کون ہے جو اپنی بات میں اللہ تعالی سے زیادہ سچا ہو ؟> النساء / 122
تو ان دونوں آیتوں میں اس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ تعالی کلام کرتا ہے اور اس کا کلام سچا اور حق ہے اس میں کسی قسم کا جھوٹ اور کذب نہیں ۔
اور اللہ عزوجل کا فرمان ہے :
< اور جب اللہ تعالی نے کہا اے عیسی بن مریم > المائدہ / 166
تو اس آیت میں ہے کہ اللہ تعالی کلام کرتا اور اس کی کلام کی آواز ہے جو کہ سنی جاتی ہے اور اس کے کلمات اور جملے ہیں اور اس کی دلیل کہ اس کی کلام حروف پر مشتمل ہے یہ فرمان ہے :
< اے موسی میں تیرا رب ہوں > طہ 11- 12
تو یہ کلمات حروف ہیں اور اللہ تعالی کی کلام سے ہیں ۔
اور اس کی دلیل کہ اس کی آواز ہے ۔ اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے :
< ہم نے طور کی دائیں جانب سے اسے پکارا اور راز گوئی کرتے ہوئے اسے قریب کر لیا > مریم / 52
پکار اور سرگوشی آواز کے بغیر نہیں ہوتی-
دیکھیں کتاب : لمعۃ الاعتقاد تالیف ابن عثیمین رحمہ اللہ ص 73
تو اسی بنا پر اہل سنت والجماعت کا عقیدہ یہ رہا ہے کہ اللہ تعالی جب چاہے اور جیسے چاہے آواز اور حروف کے ساتھ حقیقی طور پر کلام کرتا ہے اور اس کا یہ کلام مخلوق سے مشابہ نہیں اس کی دلیل کہ اس کی کلام مخلوق کے مشابہ نہیں اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے :
< اس جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے > الشوری 11
تو شروع سے ہی معلوم ہے کہ اہل سنت والجماعت کا عقیدہ یہی ہے اور اہل سنت والجماعت یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ قرآن اللہ تعالی کی کلام ہے اور اس عقیدے کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے :
< اگر مشرکوں میں سے کوئی آپ سے پناہ طلب کرے تو آپ اسے پناہ دے دیں یہاں تک کہ وہ اللہ تعالی کا کلام سن لے > التوبہ / 6
تو اس سے بالاتفاق قرآن مجید مراد ہے ۔ اور اللہ تعالی نے کلام کی اضافت اپنے آپ کی طرف کی ہے جس کی بنا پر یہ معلوم ہوا کہ قرآن مجید اس کا کلام ہے ۔
اور اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ قرآن مجید اللہ تعالی کا نازل کردہ کلام ہے اور مخلوق نہیں اس سے یہ کلام شروع ہوا اور اسی کی طرف لوٹ جائے گا ۔
نازل شدہ ہونے کے مندرجہ ذیل دلائل ہیں :
فرمان باری تعالی ہے :
< رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا > البقرہ / 185
اور اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
< ہم نے اسے قدر والی رات میں نازل کیا > القدر /1
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
<اور قرآن کو ہم نے تھوڑا تھوڑا کر کے اس لۓ نازل کیا ہے کہ آپ اسے بہ مہلت لوگوں کو سنائیں اور ہم نے خود بھی اسے بتدریج نازل فرمایا > الاسراء / 106
اور فرمان باری تعالی ہے :
< اور جب ہم کسی آیت کی جگہ دوسری آیت بدل دیتے ہیں اور جو کچھ اللہ تعالی نازل فرماتا ہے اسے خوب جانتا ہے تو یہ کہتے ہیں کہ آپ تو بہتان باز ہیں بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر کو علم ہی نہیں کہہ دیجۓ کہ اسے آپ کے رب کی طرف سے جبرائیل حق کے ساتھ لے کر آۓ ہیں تا کہ ایمان والوں کو اللہ تعالی استقامت عطا فرمائے اور مسلمانوں کی رہنمائی اور بشارت ہو جائے ہمیں خوب علم ہے کہ یہ کافر کہتے ہیں کہ اسے تو ایک آدمی سکھاتا ہے اس کی زبان جس کی طرف یہ نسبت کر رہے ہیں عجمی ہے اور یہ قرآن تو صاف عربی زبان میں ہے > النحل / 101 – 103
مندرجہ ذیل دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کریم مخلوق نہیں ۔
< یاد رکھو اللہ ہی کے لۓ خاص ہے خالق ہونا اور حاکم ہونا > تو اللہ تعالی نے خلق یعنی پیدا کرنا ایک اور امر وحکم کو دوسری چیز قرار دیا ہے کیونکہ عطف غیر کا تقاضا کرتا ہے اور قرآن مجید حکم اور امر سے ہے اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے :
< اور اسی طرح ہم نے آپ کی طرف اپنے حکم سے روح کو اتارا ہے آپ اس سے پہلے یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ کتاب اور ایمان کیا چیز ہے ؟ لیکن ہم نے اسے نور بنایا اس کے ذریعہ سے اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں ہدایت دیتے ہیں > الشوری / 52
تو اگر قرآن امر میں سے ہے جو کہ خلق کی قسم ہے تو قرآن غیر مخلوق ہوا کیونکہ اللہ تعالی کی صفات غیر مخلوق ہیں ۔
شرح عقیدہ طحاویہ ابن عیثمین رحمہ اللہ (1/ 418 -426)
تو ہم پر واجب اور ضروری ہے کہ ہم یہی عقیدہ رکھیں اور اس کا یقین رکھیں اور اللہ تعالی کی آیات کو ان کی مراد سے تحریف نہ کریں کیونکہ ان کی اس بات پر دلالت صریح اور واضح ہے کہ قرآن مجید اللہ تعالی کی طرف سے نازل کردہ ہے تو اسی لۓ امام طحاوی رحمہ اللہ تعالی نے یہ بات کہی ہے کہ قرآن مجید اللہ تعالی کی کلام ہے جو کہ قول کے اعتبار سے بلا کیفیت شروع ہوئی اور اس نے اسے وحی کی صورت میں اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا اور مومنوں نے اس کے حق ہونے کی تصدیق کی اور اس کا یقین کر لیا کہ یہ اللہ تعالی کی حقیقی کلام اور لوگوں کی کلام کی طرح مخلوق نہیں تو جس نے اسے سن کر یہ گمان کیا کہ یہ انسان کا کلام ہے تو اس نے کفر کیا اور اللہ تعالی نے اس کی مذمت کی اور عیب قرار دیا اور اس کے کہنے والے کو جہنم میں پھینکنے کا وعدہ کرتے ہوئے فرمایا :
< میں عنقریب اسے دوزخ میں ڈالوں گا > المدثر / 26
تو جہنم کا اس سے وعدہ جو یہ کہتا ہے کہ < یہ تو انسانی کلام کے علاوہ کچھ نہیں > المدثر / 25
تو ہمیں اس کا یقین اور ہمیں اس کا علم ہو گیا کہ یہ انسان کے خالق کا قول اور کلام ہے اور انسان کے قول سے مشابہت نہیں رکھتا-
04/08/2023
11مسلمانوں کا معبود کون ہے
جواب دینے سے قبل آپ کا دین اسلام سے اہتمام – سوال کرنے والی کی چھوٹی عمر پر – ہم اپنے تعجب کا اظہار کرنا چاہتے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالی اس سوال کے پوچھنے کی بنا پر آپ کے لۓ خیر عظیم کے دروازے کھول دے اور آپ کے لۓ وہ ہدایت لکھ دے جو کہ آپ کے وہم وگمان میں بھی نہ ہو ۔
ارشاد باری تعالی ہے :
( یہ اللہ تعالی کی ہدایت ہے جسے چاہے اپنے بندوں میں سے اس کے ذریعے سے اس کی ہدایت دے دیتا ہے ) الانعام / 88
فرمان ربانی ہے :
( اللہ تعالی جسے ہدایت دینا چاہتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لۓ کھول دیتا ہے ) الانعام 125
اور یہ عظیم سوال کہ مسلمان کس کی عبادت کرتے ہیں ؟ تو اس کے متعلق قرآن کریم جو کہ اسلام کی کتاب ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام سے جو کہ ان کی طرف ان کے رب کی وحی ہے سے جواب دیا جاتا ہے ۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
( شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے سب تعریفیں اللہ تعالی کے لۓ ہیں جو تمام جہانوں کا رب اور پالنے والا ہے ، جزا کے دن (یعنی قیامت ) کا مالک ہے ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں ) سورۃ الفاتحہ
اور اللہ تعالی کا فرمان ہے :
( اے لوگو! اپنے اس رب کی عبادت کرو جس کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے تو تم اسی کی عبادت کرو اور وہ ہر چیز کا کار ساز ہے ) الانعام / 102
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
( اور آپ کا رب یہ حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور والدین کے ساتھ احسان کرتے رہو اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا اور نہ ہی انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب واحترام سے بات چیت کرنا ) الاسراء 23
اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا :
( کیا یعقوب ( علیہ السلام) کی وفات کے وقت تم موجود تھے ؟ جب انہوں نے اپنی اولاد کو کہا کہ تم میرے بعد کس کی عبادت کرو گے تو سب نے جواب دیا آپ کے معبود کی اور آپ کے آباء اجداد ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق (علیہم السلام) کے معبود کی جو معبود ایک ہی ہے اور ہم اسی کے فرمانبردار رہیں گے ) البقرہ / 133
مسلمان اللہ تعالی کی عبادت کرتے اور اپنے علاوہ دوسرے ادیان والوں کو صرف اللہ وحدہ کی عبادت کی طرف بلاتے ہیں :
جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے :
( آپ کہہ دیجۓ کہ اے اہل کتاب ایسی انصاف والی بات کی طرف آؤ جو کہ ہم تم میں برابر ہے کہ ہم اللہ تعالی کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کریں اور نہ ہی اس کے ساتھ کسی کو شریک بنائیں اور نہ ہی اللہ تعالی کو چھوڑ کر آپس میں ایک دوسرے کو رب بنائیں پس اگر وہ منہ پھیر لیں تو تم کہہ دو کہ گواہ رہو ہم تو مسلمان ہیں )
آل عمران / 64
نوح علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کو اللہ وحدہ کی عبادت کی طرف ہی دعوت دی تھی ۔
فرمان ربانی ہے :
( ہم نے نوح ( علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو انہوں نے فرمایا اے میری قوم تم اللہ تعالی کی عبادت کرو تمہارے لۓ اس کے علاوہ کوئی معبود ہونے کے قابل نہیں مجھے تم پر ایک بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ ہے ( الاعراف / 59
وہی اللہ وحدہ ہے جس کی عبادت کی پکار عیسی علیہ السلام نے لگائی تھی ۔
فرمان باری تعالی ہے :
( بے شک وشبہ وہ لوگ کافر ہوئےجنہوں نے یہ کہا کہ مسیح بن مریم ہی اللہ ہے حلانکہ خود مسیح نے ان سے کہا تھا کہ اے بنی اسرائیل اللہ ہی کی عبادت کرو جو میرا اور تم سب کا رب ہے یقین جانو کہ جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے اس پر اللہ تعالی نے جنت حرام کر دی ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہی ہے اور ظالموں کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ہو گا ) المآئدہ / 72
اور رب جل جلالہ کا فرمان ہے :
( اور وہ وقت بھی قابل ذکر ہے جب کہ اللہ تعالی فرمآئے گا کہ اے عیسی بن مریم کیا تم نے ان لوگوں سے یہ کہہ دیا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو بھی اللہ کے علاوہ معبود قرار دے لو عیسی (علیہ السلام) عرض کریں گے کہ اللہ تو غیبوں سے پاک ہے مجھے یہ کسی طرح بھی زیبا نہیں تھا کہ میں ایسی بات کہتا جس کے کہنے کا مجھے کوئی حق نہیں اگر میں نے کہا ہو گا تو تجھ کو اس کا علم ہو گا تو میرے دل کے اندر کی بات بھی جانتا ہے اور میں تیرے نفس میں جو کچھ ہے اس کو نہیں جانتا بیشک تو تمام غیبوں کا جاننے والا تو ہی ہے میں نے انہیں وہی کہا جو تو نے مجھے حکم دیا تھا کہ تم اللہ تعالی کی عبادت اور اس کی بندگی اختیار کرو جو کہ میرا اور تمہارا رب ہے میں تو ان پر اس وقت تک گواہ رہا جب تک کہ میں ان میں رہا پھر جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو تو ہی ان پر مطلع رہا ہے اور تو ہر چیز کی پوری خبر رکھنے والا ہے ) المائدۃ / 116 – 117
اور جب اللہ تعالی سے اس کے نبی موسی علیہ السلام نے بات کی تو اللہ تعالی نے انہیں فرمایا :
( بےشک میں تیرا الہ ہوں میرے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں پس تو میری ہی عبادت کر اور میری یاد کے لۓ نماز قائم کر ) طہ / 14
اور اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مندرجہ ذیل حکم دیا :
( کہہ دیجۓ اے لوگو اگر تمہیں میرے دین میں کوئی شک وشبہ ہے تو میں ان معبودوں کی عبادت نہیں کرتا جن کی تم اللہ کوچھوڑ کر عبادت کرتے ہو لیکن ہاں میں اللہ کی عبادت کرتا ہوں جو تمہیں فوت کرتا ہے اور مجھ کو یہ حکم ہوا ہے کہ میں ایمان دار مومنوں میں سے ہو جاؤں ) یونس / 104
اور وہ اکیلا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں فرشتے اس کی عبادت کرتے اور کسی کی نہیں۔
جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے :
( آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ اللہ تعالی ہی کی ملکیت ہے اور جو اس کے پاس ہیں وہ اس کی عبادت سے سرکشی نہیں کرتے اور نہ ہی تھکتے ہیں ) الانبیاء / 19
اللہ تعالی کے علاوہ جتنے بھی معبود ہیں جن کی عبادت کی جاتی ہے وہ نہ تو نفع اور نقصان کے مالک ہیں اور نہ ہی پیدا کرنے اور رزق دینے کی طاقت رکھتے ہیں ۔
ارشاد باری تعالی ہے :
( آپ کہہ دیجۓ کہ کیا تم اللہ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہو جو نہ تمہارے کسی نفع اور نہ ہی نقصان کے مالک ہیں اللہ ہی خوب سننے والا اور پوری طرح جاننے والا ہے ) المائدۃ / 76
اور فرمان باری تعالی ہے :
( تم تو اللہ تعالی کے سوا بتوں کی عبادت اور پوجا کر رہے ہو اور جھوٹی باتیں دل سے گھڑ لیتے ہو سنو جن جن کی تم اللہ تعالی کے علاوہ عبادت کر رہے ہو وہ تو تمہاری روزی کے مالک نہیں بس تمہیں چاہۓ کہ تم اللہ تعالی سے ہی روزی طلب کرو اور اسی کی عبادت کرو اور اسی کی شکر گزاری کرو اور اس کی طرف لوٹآئے جاؤ گے ) العنکبوت / 17
ہم صرف اللہ وحدہ لا شریک ہی کی عبادت کیوں کرتے ہیں ؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ :
اول – کیونکہ اس پورے جہان میں اگر کوئی عبادت کا مستحق ہے وہ اللہ تعالی کے علاوہ کوئی اور نہیں ہے کیونکہ وہی خالق اور رازق ہے جس نے ہمیں عدم سے وجود دیا اور ہمارے اوپر بے شمار نعمتیں کیں ۔
فرمان باری تعالی ہے :
( پس جب تم صبح کرو اور شام کرو تو اللہ تعالی کی تسبیح بیان کیا کرو ) 17
( تمام تعریفوں کے لائق آسمان وزمین میں صرف وہی ہے تیسری پہر اور ظہر کو بھی اس کی حمد بیان کیا کرو ) 18
وہی زندہ کو مردہ سے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے اور وہی ہے جو زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کرتا ہے اسی طرح تم بھی نکالے جاؤ گے ) 19
( اللہ کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا پھر تم انسان بن کر چلنے پھرنے لگے اور پھیل رہے ہو ) 20
( اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہاری جنس سے تمہاری بیویاں پیدا کیں تا کہ تم ان سے آرام اور سکون پاؤ اور اس نے تمہارے درمیان محبت وہمدردی قائم کر دی یقینا غور و فکر کرنے والوں کے لۓ اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ) 21
( اور اس کی نشانیوں میں سے تمہاری راتوں اور دن کی نیند اور تمہارا اس کے فضل کو ( یعنی روزی ) تلاش کرنا بھی ہے جو لوگ ( کان لگا کر) سننے کے عادی ہیں ان کے لۓ اس میں بھی بہت سی نشانیاں ہیں ) 23
( اور اس کی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ تمہیں ڈرانے اور امید کے لۓ بجلیاں دکھاتا اور آسمان سے بارش برسا کر اس سے مردہ زمین کو زندہ کر دیتا ہے اس میں بھی عقلمندوں کے لۓ بہت سی نشانیاں ہیں ) 24
( اور اس کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ آسمان وزمین اسی کے حکم سے قائم ہیں پھر جب وہ تمہیں آواز دے گا تو صرف ایک بار ہی آواز کے ساتھ تم سب زمین سے نکل آؤ گے ) 25
( اور زمین وآسمان کی ہر چیز اسی کی ملکیت ہے اور ہر ایک اس کے فرمان کے ماتحت ہے ) 26
( اور وہی ہے جس نے پہلی بار مخلوق کو پیدا کیا پھر اسے دوبارہ لوٹآئے گا اور یہ تو اس پر بہت ہی آسان ہے اسی کی آسمان وزمیں اعلی صفت ہے اور وہ غلبے اور حکمت والا ہے ) الروم / 27
اور اللہ عزوجل کا فرمان ہے :
( بھلا بتاؤ تو ؟ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ؟ اور تمہارے لۓ آسمان سے بارش کس نے برسائی ؟ پھر اس سے ہرے بھرے بارونق باغات اگا دۓ ان باغوں اور درختوں کو تم ہر گز نہیں اگا سکتے تھے کیا اللہ تعالی کے ساتھ کوئی اور بھی معبود ہے ؟ بلکہ یہ لوگ ( سیدھی راہ سے ) ہٹ جاتے ہیں ) 60
( کس نے زمین کو قرار کی جگہ بنایا اور اس کے درمیان نہریں جاری کر دیں اور اس کے لۓ پہاڑ بنآئے اور دو سمندروں کے درمیان روک بنا دی کیا اللہ تعالی کے ساتھ کوئی اور بھی معبود ہے ؟ بلکہ ان میں سے اکثر تو کچھ بھی نہیں جانتے ) 61
( کون ہے جو بے کس اور لاچار کی پکار کو سنتا اور اس کی سختی کو دور کرتا ہے ؟ اور تمہیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے ؟ کیا اللہ تعالی کے ساتھ کوئی اور بھی معبود ہے ؟ تم تو بہت ہی کم نصیحت وعبرت حاصل کرتے ہو ) 62
( کون ہے جو تمہیں خشکی اور تری کی تاریکیوں میں راہ دکھاتا ہے ؟ اور جو اپنی رحمت سے پہلے خوشخبری دینے والی ہوائیں چلاتا ہے ؟ کیا اللہ تعالی کے ساتھ کوئی اور بھی معبود ہے ؟جنہیں یہ اللہ تعالی کے ساتھ شریک کرتے ہیں ان سب سے اللہ بلند وبالا تر ہے ) 63
( کون ہے جو مخلوق کی پہلی دفعہ پیدائش کرتا ہے پھر اسے لوٹآئے گا ؟ اور جو تمہیں آسمان وزمین سے روزیاں دے رہا ہے ؟ کیا اللہ تعالی کے ساتھ کوئی اور بھی معبود ہے ؟ کہہ دیجۓ کہ اگر تم سچے ہو تو اپنی دلیل لاؤ ) 64
( کہہ دیجۓ کہ آسمان والوں اور زمین والوں میں سے اللہ کے علاوہ کوئی بھی غیب نہیں جانتا اور انہیں تو یہ بھی علم نہیں کہ انہیں اٹھایا کب جائے گا ) النمل / 65
تو پھر کیا اللہ کے علاوہ کوئی ایسا ہے جو کہ عبادت کا مستحق ہو ؟
دوم : اللہ تعالی نے ہمیں اپنی عبادت کے علاوہ کسی اور چیز کے لۓ پیدا نہیں کیا ۔
فرمان باری تعالی ہے :
( میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لۓ پیدا کیا ہے ) الذاریات / 56
سوم: قیامت کے دن صرف وہی نجات پآئے گا جو کہ اللہ تعالی کی عبادت حقیقی طور پر کرتا ہو گا )
اور موت کے بعد اللہ تعالی بندوں کو دوبارہ اٹھآئے گا تا کہ ان کا حساب کیا جائے اور انہیں ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے تو اس دن نجات وہی حاصل کرے گا جو کہ اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کرتا ہو گا اور باقی لوگوں کو جہنم کی طرف اکٹھا کر دیا جائے گا اور جہنم بہت ہی برا ٹھکانہ ہے ۔
جب صحابہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ آیا ہم قیامت کے دن اللہ عزوجل کو دیکھیں گے ؟ تو اسلام کے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں ارشاد فرمایا :
( جب مطلع صاف ہو تو کیا تمہیں سورج اور چاند کو دیکھنے میں کوئی مشکل پیش آتی ہے تو صحابہ نے کہا کہ بالکل نہیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اس دن اپنے رب کو دیکھنے میں کوئی مشکل نہیں اٹھاؤ گے جس طرح کہ ان دونوں کے دیکھنے میں کوئی تکلیف نہیں اٹھاتے پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک منادی کرنے والا آواز لگآئے گا کہ ہر قوم اس کی طرف چلی جائے جس کی وہ عبادت کرتے تھے تو صلیبی صلیب کے ساتھ اور بتوں کی پوجا کرنے والے بتوں کے ساتھ اور ہر ایک اپنے معبود کے ساتھ حتی کہ وہ لوگ جو کہ اللہ تعالی کی عبادت کرتے تھے ان نیک اور فاجر اور اہل کتاب میں سے بچے کھچے رہ جائیں گے پھر جہنم پر لا کر ایسے پیش کی جائے گی کہ جیسے سراب ہو تو یہودیوں کو کہا جائے گا کہ تم کس کی عبادت کرتے تھے وہ جواب دیں گے اللہ کے بیٹے عزیر کی عبادت کرتے تھے تو انہیں جواب میں کہا جائے گا تم جھوٹ بول رہے ہو اللہ کی کوئی بیوی اور بیٹا نہیں تم کیا چاہتے ہو وہ کہیں گے کہ ہمیں پانی پلاؤ تو انہیں کہا جائے گا پیو تو وہ جہنم میں گرا دیے جائیں گے پھر عیسائیوں کو کہا جائے گا کہ تم کس کی عبادت کرتے تھے تو وہ جواب دیں گے اللہ کے بیٹے مسیح کی عبادت کرتے تھے تو انہیں جواب میں کہا جائے گا تم جھوٹ بول رہے ہو اللہ کی کوئی بیوی اور بیٹا نہیں تو کیا چاہتے ہو وہ کہیں گے ہمیں پانی پلا دو تو انہیں کہا جائے گا پیو تو وہ جہنم میں گرا دۓ جائیں گے حتی کہ نیک اور فاجر جو کہ اللہ تعالی کی عبادت کرتے تھے وہ باقی بچ جائیں گے تو انہیں کہا جائے گا تمہیں کس نے روک رکھا ہے حلانکہ سب لوگ جا چکے ہیں تو وہ جواب دیں گے ہم نے انہیں چھوڑ دیا ہے اور ہم آج کے دن اس کے زیادہ ضرورت مند ہیں ہم نے ایک منادی کرنے والے کو سنا جو کہ حق کی آواز لگا رہا تھا کہ ہر قوم جس کی عبادت کرتی رہی ہے وہ اس کے ساتھ مل جائے اور ہم اپنے رب کا انتظار کر رہے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو ان کے پاس اللہ تعالی آئے گا اور کہے گا میں تمہارا رب ہوں تو وہ کہیں گے تو ہمارا رب ہے تو اس سے انبیاء کے علاوہ کوئی بھی بات نہیں کرے گا تو ہر مومن شخص اسے سجدہ کرے گا )
صحیح بخاری حدیث نمبر 6776
اور یہ مومن ہی جنتی ہوں گے جن پر کوئی خوف نہیں ہو گا اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے اور وہ اس جنت میں ہمیشہ ہمشہ رہیں گے ۔
ہم امید کرتے ہیں یہ معاملہ واضح ہو گیا ہو گا اور اس کے بعد اور کچھ تو نہیں کہتے صرف اتنا ہی جو کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے :
(جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو وہ اپنے لۓ ہی اور جو گمراہ ہو جائے اس کا وبال اس پر ہی ہے ) الاسراء / 15
اور سلامتی اس پر ہے جو کہ ہدایت کی اتباع کرتا ہے ۔
04/08/2023
12مطلقا یہ لفظ کہنے کہ ہم اللہ تعالی کے بیٹے ہیں
( ساری مخلوق اللہ تعالی کے عیال ہیں ان میں سے اللہ تعالی کو سب سے محبوب وہ ہے جو اس کے عیال کو سب سے زیادہ نفع دینے والا ہو )
مذکورہ حدیث کو ان الفاظ کے ساتھ بزار اور ابو یعلی نے انس رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے جو کہ انتہائی ضعیف قسم کی حدیث ہے جیسا کہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے ضعیف الجامع میں کہا ہے حدیث نمبر (2946)
مسلمانوں میں سے جو شخص یہ کہے کہ ہمارا ایمان ہے کہ ہم سب اللہ تعالی کے بیٹے ہیں تو اس پر حکم لگانے سے قبل یہ ضروری ہے کہ اس سے اس کی تفصیل معلوم کی جائے کہ وہ کیا مراد لے رہا ہے ۔
1- تو اگر اس نے اولاد اور بیٹے کا مجازی معنی مراد لیا جو کہ یہ ہے ( یہ سب لوگ اللہ تعالی کے محتاج اور اس کے فقیر ہیں ) اور اس عبارت کو کسی مشروع اور جائز غرض میں استمعال کیا مثلا عیسائیوں کے رد میں جو کہ یہ کہتے ہیں کہ مسیح علیہ السلام اللہ تعالی کے بیٹے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں کہ وہ اس کا الزام عیسائیوں پر کرے تا کہ ان کا عقیدہ باطل کر سکے لیکن اس کا استعمال ان کے علاوہ کسی اور کے ساتھ نہ کرے کیونکہ اس سے اس کے لۓ باطل معانی کا اخذ اور التباس کا خطرہ ہے کیونکہ عیسائیوں کے عیسی علیہ السلام کے متعلق عقیدہ کو باطل کرنے کے لۓ ان عبارتوں سے جو کہ ان کی کتاب مقدس میں ہیں جن میں عیسی علیہ السلام کے علاوہ دوسروں کے لۓ بھی بیٹے کے لفظ ثابت ہیں اور یہ بنوہ دوسروں کے لۓ بھی ثابت ہے اس کے ساتھ انہیں لا جواب کرنا کہ انجیل میں ہر عبارت کے اندر بیٹے کا معنی حقیقی نہیں ہے جیسا کہ عیسی علیہ السلام کے متعلق ان کا گمان ہے اور جسے پولس پادری نے انہیں عقیدہ توحید سے منحرف ہونے کی اور اس واہمے کی بنا پر اس میں داخل کیا ہے جس سے بیٹا اور باپ کا معنی لیا جاتا ہے ۔
ان عبارتوں میں سے انجیل لوقا میں (20 / 36) ہے کہ عیسی علیہ السلام نے ان کے متعلق جو ان پر ایمان لائے تھے فرمایا کہ : (وہ فرشتوں کی طرح ہیں نہ تو وہ مریں گے وہ اللہ تعالی کے بیٹے ہیں کیونکہ وہ قیامت کے بیٹے ہیں )
اور اسی طرح سفر آشعیا میں ہے : ( 43 /6) (دور سے میرے بیٹے اور بیٹیوں کو زمین کے کناروں سے لاؤ )
اور جیسا کہ انجیل یوحنا میں ہے کہ : (1 /12) ( اور ان سب کو جنہوں نے اسے قبول کر لیا تو انہیں دلیل دی کہ وہ اللہ کی اولاد بن جائیں یعنی اس کے نام کے ساتھ ایمان لانے والے جو کہ خون اور کسی جسم اور کسی آدمی کے ارادہ اور مشیت سے پیدا نہیں ہوئےبلکہ اللہ کے ارادہ سے ہیں )
اور اسی طرح اللہ تعالی کا وصف باپ آیا ہے انجیل متی میں ہے کہ (6/1) عیسی علیہ السلام کا اپنے شاگردوں کو یہ کہنا کہ (وگرنہ تمہارے لۓ تمہارے باپ کے پاس آسمان میں کوئی اجر نہیں ہے )
اور انجیل لوقا میں ہے : (11/ 2) (جب بھی تم نماز پڑھو تو یہ کہو کہ ہمارا باپ وہ ہے جو کہ آسمانوں میں ہے )
اور انجیل یوحنا میں ہے : (20 / 17) ( میں تمہارے اور اپنے باپ کی طرف چڑھ رہا ہوں جو کہ میرا اور تمہارا الہ ہے )
تو عیسائی یہ نہیں کہتے کہ فرشتے اور بنو اسرائیل اور حواری یہ اللہ تعالی کے حقیقی بیٹے ہیں جیسا کہ وہ یہ بھی نہیں کہتے کہ اللہ تعالی ان سب کا حقیقی باپ ہے بلکہ وہ اسے مجازی معنی پر محمول کرتے ہیں یعنی وہ نعمتوں اور احسان اور حفاظت اور دیکھ بھال کے اعتبار سے باپ اور وہ عبادت اور فقیری اور محتاجگی کے اعتبار سے اس کے بیٹے ہیں ۔
تو اس طرح ان کا یہ استدلال کہ انجیل میں یہ وصف موجود ہے کہ عیسی علیہ السلام اللہ تعالی کے بیٹے ہیں باطل ہو جاتا ہے ۔
2- اور اگر اس سے مراد یہ ہے کہ : سب لوگ اسی طرح اللہ تعالی کے بیٹے ہیں جس طرح کہ عیسی علیہ السلام ہیں جس طرح کہ عیسائیوں کا عقیدہ ہے تو یہ عیسائیوں سے بڑھ کر کفر ہے ۔
3- اور اگر وہ اس سے مراد یہ لیتا ہے کہ : سب اللہ تعالی کے بیٹے اور اس کے عیال ہیں تو پھر مسلمان اور کافر کے درمیان فرق ہی نہ ہوا تو اس سے اس کی مراد یہودیوں اور عیسائیوں اور بتوں کے بچاریوں کو کافر نہ کہنا ہے تو یہ اسلام سے مرتد ہونا ہے کیونکہ بلا شک جس نے یہودیوں اور عیسائیوں کے کفر میں شک کیا یا پھر ان کے مذہب کو صحیح کہا وہ اجماع کے ساتھ کافر ہے ۔
4- اور اگر اس سے یہ مراد لیا کہ بھائی کے لفظ کو مطلقا جائز قرار دیا کہ سب مطلقا بھائی ہیں یہودی اور عیسائی پر بھی اس کا اطلاق کیا کیونکہ سب اللہ تعالی کے عیال ہیں تو یہ بھی باطل ہے کیونکہ مومنوں اور کفار کے درمیان اخوت اور بھائی چارہ نہیں ہے ۔
اور یہ حدیث بھی صحیح نہیں اور اگر صحیح بھی ہوتی تو پھر بھی اس سے اس اطلاق پر دلیل نہیں لی جا سکتی ۔
04/08/2023
غیرمسلموں-کودعوت
1اسلام صحيح ہونے كے ليے گواہوں كے سامنے اسلام كا اعلان كرنا ضرورى نہيں
كسى شخص كے مسلمان ہونے كے ليے يہ شرط نہيں كہ وہ اپنے اسلام كا لوگوں كے سامنے اعلان كرے، اسلام تو بندے اور اس كے رب كے مابين ہے، اور جب اس كے اسلام كى گواہى دى جائے تا كہ اس كے كاغذات وغيرہ ميں توثيق ہو تو اس ميں كوئى حرج نہيں، ليكن اسے اس كے اسلام صحيح ہونے كى شرط نہيں بنايا جا سكتا.
اس كى تفصيل كئى ايك سوالات كے جوابات ميں بيان ہو چكى ہے آپ سوال نمبر ( 11936 ) اور ( 655 ) اور ( 6542 ) اور ( 6703 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں.
دوم:
بيوى كے ولى كے بغير عقد نكاح صحيح نہيں ہوتا، اور كسى كافر كو مسلمان عورت پر ولايت حاصل نہيں، اگر اس كا كوئى مسلمان ولى نہ ہو تو قاضى يا امام مسجد يا علاقے كا مفتى ولى كے قائم مقام ہوگا.
سوال نمبر ( 7714 ) اور ( 7989 ) كے جوابات ميں كفريہ ممالك جہاں عورت كا كوئى مسلمان ولى نہ ہو كے حكم كى تفصيل بيان ہوئى ہے آپ اس كا مطالعہ كريں.
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ دونوں ميں بركت عطا فرمائے، اور آپ دونوں پر بركت نازل كرے، اور آپ كو خير و بھلائى پر جمع كرے.
04/08/2023
2مسلمان اپنی اوردوسروں کی نظروں میں
مسلمان وہ ہیں جنہوں نے اپنے آپ کواللہ تعالی کے سپرد کر دیا اوراس کی شریعت کو قائم اوراپنے رب سبحانہ وتعالی کی کتاب اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پرعمل کیا ہے ، اورانہوں نے وہی کام کیے ہیں جن کا انہیں اللہ تعالی اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیا اورانہوں نے محرمات کوترک کردیا ۔
توجب یہ کچھ پایا جاۓ توپھر ان کے دشمن ان کی طرف ہیبت ووحشت اوراکبار اعزاز کی نظر سے دیکھتے ہیں ، اس کا سبب یہ ہے کہ وہ اس کوجانتے ہیں کہ مسلمانوں کا دین اسلام پرتمسک اورالتزام انہیں اللہ تعالی کے ہاں رفعت وبلندی عطا کرتا اور بندوں اورملکوں پران کی حکومت قائم کرتا ہے ۔
تواس اعتبار سے اعداء اسلام ان کی طرف ہیبت اور احترام اوران سے خوف کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔
لیکن جب ان میں دینی کمزوری آجاۓ اور اس کا تمسک کمزور پڑ جاۓ اوران میں بدعات اورنۓ نۓ کام پیدا ہو جائيں تودشمنان دین انہیں حقارت و ذلت اورکمینگی کی نظرسے دیکھنا شروع کردیتے ہیں ، دشمنان دین کے دلوں سے مسلمانوں کی ہیبت وخوف جاتا رہتا ہے ۔
اورمسلمان اپنی نظرمیں اس طرح ایک دوسرے کودیکھیں کہ وہ ایک دوسرے کے حالات سے واقفیت اوران کے درمیان واقع ہونے والے خلل وضعف کودیکھتے ہوۓحتی الوسعہ اس کا علاج کریں تا کہ ان کی کھوئ ہوئ عزت واپس آسکے ۔
تاکہ ان کا دشمن اگران کے حالات جاننے کی کوشش کرے توان سے خوفزدہ ہو، اورمسلمانوں کوچاہیۓ کہ وہ اپنی اصلاح کریں اس لیے کہ اللہ تعالی انہیں قوت دینے والااوران کی مدد ونصرت کرنے والا ہے ۔.
04/08/2023
3اسلام کی ابتداکب ہوئ اوراسلامی ترقی کس نے وضع کی
اگرآپ کااسلامی ترقی سے مقصد دین اسلام ہے تو اس کا جواب دوسرے پہرے میں ہے ۔
1 - اگرتواس سوال سے آپ کا مقصد امت اسلامیہ کے مادی ترقی ہے جوکہ اسے اسلام کے سنہری ادوار میں حاصل ہوئ ، تویہ کوئ ابھی پیدا نہیں ہوئ بلکہ اسلام کی ابتداء کےسے ہی اس کا آغاز ہوچکا تھا بلکہ خصوصی طور پردورنبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں جب مملکت اسلامیہ کا قیام عمل میں آیا تووہ ترقی کی راہ پرگامزن ہوئ ۔
اورپھرفتوحات اسلامیہ کے ساتھ ساتھ اس میں ترقی اورجدت آتی گئ حتی کہ جہاں تک پہنچنی تھی پہنچ گئ ، اگراس کی نسبت کرنا صحیح ہوتواللہ تعالی کے بعدنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی جاسکتی ہے ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ کے علاوہ سب نے اپنی استطاعت کے مطابق اس کے مکمل کرنے میں حصہ ڈالا ہے ۔
2 - اوردین اسلام کی ابتدا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے ہوئ ،اوراس دین سے مقصود دین اسلام کا عقیدہ اورشریعت ہے ۔
اوراسلامی احکامات بہت زيادہ ہیں جن کواس جلدبازی سے ذکرکرنا مشکل ہے لیکن یہاں پرہم ان میں کچھ اہم احکامات کا ذکر کرتے ہیں :
اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ وحدہ لاشریک کے علاوہ کوئ معبود برحق نہیں اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کے رسول ہیں ، اورنمازکی پابندی کرنا ، زکاۃ کی ادائگي ، رمضان المبارک کےروزے رکھنا ، بیت اللہ کا حج کرنا ۔
کوئ بھی انسان کلمہ طیبہ( لا إله إلا الله وأن محمداً رسول الله ) پڑھ کراسلام میں داخل ہوسکتا ہے ، کلمہ پڑھنے کے بعد باقی احکامات نماز ، روزہ ، حج ، وغیرہ پرعمل کرنا ضروری ہے جن کی تفصیل آپ مندرجہ ذيل سوال نمبر (13569 ) کے جواب میں پائيں گے آپ اس کا مراجعہ کریں ۔
04/08/2023
4اسلام قبول کرنے والے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا نام معلوم ہونا ضروری ہے؟
اگر کوئی بولنے کی استطاعت رکھتا ہو تو شہادتین کے تلفظ کے اور ان کے اقرار کے بغیر انسان اسلام میں داخل نہیں ہوتا، امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اہل سنت محدثین، فقہائے کرام اور متکلمین اس بات پر متفق ہیں کہ: کوئی ایسا مومن جس کے بارے میں یہ حکم لگایا جائے کہ وہ اہل قبلہ میں شامل ہے اور ہمیشہ جہنم میں نہیں رہے گا [آخر کار جنت میں ضرور جائے گا]اسی وقت ہو سکتا ہے جب وہ اپنے دل سے پختہ طور پر اسلام کو بطور دین قبول کرے اور کسی قسم کا اسلام کے متعلق اس کے دل میں شک و شبہ باقی نہ ہو، نیز شہادتین زبان سے ادا بھی کرے۔ چنانچہ اگر کوئی شخص ان میں سے صرف کوئی ایک کام کرتا ہے تو وہ سرے سے اہل قبلہ میں شامل ہی نہیں ہو سکا، ہاں اگر زبان میں خلل کی بنا پر یا تلفظ نہیں کر سکا یا موت کی کشمکش میں یا کسی اور سبب کے باعث زبان سے ادا نہیں کر پایا تو وہ بھی مومن ہو گا" ختم شد
شرح مسلم ، از امام نووی(1/ 149)
شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"شہادتین کا تلفظ لازمی امر ہے، اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں، چنانچہ اگر کوئی زبان سے تلفظ کر سکتا تھا لیکن پھر بھی اس نے زبان سے تلفظ نہیں کیا تو وہ اسلام میں اس وقت تک داخل ہی نہیں ہو گا جب تک زبان سے شہادتین کا اقرار نہ کر لے، اس پر اہل علم کا اجماع ہے، اسی طرح تلفظ کے ساتھ شہادتین کے معنی کے مطابق حقیقی معنوں میں عقیدہ بھی رکھے" ختم شد
مجموع فتاوى ابن باز" (5/ 340)
اگر کوئی شخص شہادتین کا تلفظ نہیں کر سکتا جیسے کہ کوئی گونگا ہے تو اگر اس میں لکھنے کی صلاحیت ہے تو وہ لکھ کر اسلام قبول کرے گا، یا کسی اشارے سے اسلام قبول کرے گا جس سے یہ واضح ہو کہ اس شخص نے اپنی پوری خوشی اور مکمل رضا مندی سے اسلام قبول کر لیا ہے۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (224858) کا جواب ملاحظہ کریں۔
دوم:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت کی گواہی دیتے ہوئے آپ کا نام لینا ضروری ہے، اس میں آپ کے کسی بھی نام اور کنیت کو ذکر کیا جا سکتا ہے، سب کا حکم یکساں ہے، مثلاً: محمد، احمد، الماحی اور ابو القاسم وغیرہ ۔
جیسے کہ حلیمی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر کوئی کافر [اسلام قبول کرنے کے لئے ]یہ کہے کہ "لا الہ الا اللہ احمد رسول اللہ" تو اس کا یہ بول "لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ" کہنے کی طرح ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ
ترجمہ: اور میں [عیسی بن مریم] ایک ایسے رسول کی خوش خبری دینے والا ہوں جو میرے بعد آئے گا اور اس کا نام احمد ہے۔ [الصف: 6]
پھر دونوں ناموں کا مسمی بھی ایک ہی ہے، اس لیے ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔
اسی طرح اگر کہے کہ "لا الہ الا اللہ ابو القاسم رسول اللہ" تو تب بھی صحیح ہے۔ واللہ اعلم"
" المنھاج فی شعب الإيمان" از حلیمی(1/140)
سوم:
جس شخص کو یہ علم ہو کہ کوئی ایک رسول ہے جسے ساری انسانیت کی جانب بھیجا گیا ہے، لیکن اسے اس رسول کے نام کا علم نہیں ہے، تاہم وہ اس پر ایمان رکھتا ہے، اس بات کی گواہی اپنی زبان سے بھی دیتا ہے تو وہ شخص بھی مسلمان ہو گا، مثلاً: کوئی شخص کہے: میں نے اسلام قبول کر لیا، یا کہہ دے میں اس رسول پر ایمان لایا جس پر مسلمان ایمان لاتے ہیں، اسی طرح کی بات اللہ تعالی نے فرعون سے بھی نقل کی ہے کہ جب وہ پانی میں غرق ہونے لگا تو اس نے کہا تھا:
حَتَّى إِذَا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ قَالَ آمَنْتُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا الَّذِي آمَنَتْ بِهِ بَنُو إِسْرَائِيلَ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ
ترجمہ: جب وہ پانی میں غرق ہونے لگا تو اس نے کہا: میں اس ذات پر ایمان لاتا ہوں جس کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں، اور جس پر بنی اسرائیل ایمان رکھتے ہیں، اور میں بھی مسلمانوں میں سے ہوں۔[يونس: 90]
پھر اس کے جواب میں اللہ تعالی نے فرمایا:
آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ وَكُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ
ترجمہ: کیا اب ایمان لاتا ہے؟! حالانکہ اس سے قبل تو نافرمانی کرتا رہا، اور تو فسادیوں میں سے تھا![يونس: 91]
تو اس سے یہ معلوم ہوا کہ اگر وہ یہ بات غرق ہونے سے پہلے کرتا تو اس کی یہ بات قبول ہو سکتی تھی۔
چنانچہ اگر کوئی کافر شخص ایسی بات کرتا ہے جس سے معلوم ہو کہ وہ دین اسلام میں داخل ہو گیا ہے، اور وہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لے آیا ہے تو اس سے یہ بات قبول کی جائے گی، اس کے مسلمان ہونے کا حکم لگایا جائے گا، پھر اسے شہادتین مکمل طور پر سکھلائی جائیں گی۔
بلکہ اگر کوئی کافر صرف یہ کہتا ہے کہ: "لا الہ الا اللہ" تو تب بھی اس کے مسلمان ہونے کا حکم لگایا جائے گا، پھر اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت کے متعلق سکھایا جائے گا اور رسالت نبوی کی گواہی بھی اس سے لی جائے گی۔
شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ ایسی احادیث جن میں کافر کو شہادتین کی گواہی دینے کا حکم ہے، انہیں ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں:
"مذکورہ دلائل اور اسی طرح کے دیگر دلائل اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اسلام میں داخلہ شہادتین کے بغیر ممکن نہیں۔
تاہم کچھ ایسی دلیلیں بھی ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان اسلام میں صرف پہلی گواہی دینے کے بعد سے ہی مسلمان ہو جاتا ہے، یعنی صرف "لا الہ الا اللہ" کہنے سے مسلمان ہو جاتا ہے، ان احادیث میں سے اسامہ رضی اللہ عنہ کی حدیث بھی ہے، جس میں ہے کہ اسامہ رضی اللہ عنہ نے ایک مشرک کو میدان جنگ میں دبوچ لیا ، جب اسامہ ان پر مکمل حاوی ہو گئے تو کافر نے "لا الہ الا اللہ" کہہ دیا لیکن اسامہ نے پھر بھی اسے قتل کر دیا، اس کی بابت اسامہ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو بتلایا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اسامہ تم نے اسے "لا الہ الا اللہ" کہنے کے بعد بھی قتل کر دیا!؟) تو اسامہ نے کہا: جی ہاں؛ کیونکہ اس نے "لا الہ الا اللہ" تو اپنی جان بچانے کے لئے کہا تھا، تا کہ قتل ہونے سے بچ جائے، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اسامہ تم نے اسے "لا الہ الا اللہ" کہنے کے بعد بھی قتل کر دیا!؟) آپ صلی اللہ علیہ و سلم بار بار یہی بات فرماتے رہے، یہاں تک کہ اسامہ کہتے ہیں: مجھے یہ تمنا ہونے لگی کہ کاش میں آج تک مسلمان ہی نہ ہوا ہوتا۔ کیونکہ اگر یہ گناہ ہونے کے بعد مسلمان ہوتے تو اس گناہ سمیت تمام پاپ دھل جاتے۔
اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ "لا الہ الا اللہ" کہنے سے وہ کافر شخص مسلمان ہو گیا تھا، اور اس نے اپنی جان کو تحفظ فراہم کر دیا تھا۔
اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ و سلم جس وقت اپنے چچا ابو طالب کی وفات کے وقت ان کے پاس آئے تو آپ ان سے کہتے رہے: (چچا جان! "لا الہ الا اللہ" کہہ دو، اس کلمے کی بدولت تمہارے لیے اللہ کے ہاں حجت پیش کر سکوں گا) یہاں پر آپ نے کلمہ شہادت کے دوسرے حصے کو ذکر نہیں فرمایا جو کہ "محمد رسول اللہ" پر مشتمل ہے۔
04/08/2023
5نصرانی کا اہتمام اسلام
ہم آپ کے مشکورہیں کہ آپ نے ایک بہت ہی اچھی ای میل کی جس میں آپ نے کچھ مطالبہ کیا ہے جسے بڑی خوشی کے قبول کرتے ہوۓ اس سے بھی زيادہ خوشی کے ساتھ آپ کوجواب ارسال کرتے ہيں ۔
ہمیں ذاتی طورپربہت خوشی ہوی کہ آپ دین اسلام کی طرف مائل ہوۓ ہیں اوراسلام کا اہتمام کررہے ہيں ، ہم آپ سے صرف اتنا کہیں گے کہ اگرآپ دین اسلام اورباقی ادیان کا آپس میں موازنہ اورمقارنہ کریں گے توآپ کودین اسلام کی فوقیت کا علم ہوگا کہ دین اسلام ہی ایک ایسا دین ہے جوباقی سب ادیان پرغالب و اعلی ہے ۔
دین اسلام کی پختگی اوراس کی اصحت اورتغیر وتبدل سے محفوظ اورجوکچھ بھی اسلام کے متعلق آیا ہے اس کا بالکل اسی طرح صحیح طورپرموجود ہونا اوردین اسلام کے جتنے بھی احکام ہیں وہ سب کے سب عدل وانصاف پرمبنی ہیں ۔
ہماری آپ سے گزارش ہے کہ آپ ان سوالوں کے جوابا ت کا بغور مطالعہ کریں (219 اور 3143 ) ان شاءاللہ آپ پربہت کچھ واضح ہوگا
تواس طرح دین اسلام کی یہ فوقیت ہے دین اسلام کے قبول کرنے اوردین اسلام میں داخل ہونے کے لیے کا فی ہے ، تواب آپ بتائيں کہ جب یہ دین اسلام باقی سب ادیان کا ناسخ بھی ہواورپھر اللہ تعالی اپنےبندوں سے دین اسلام کے علاوہ کوئ اور دین بھی قبول نہ کرے توپھر اس اہمیت کیا ہوگی ؟
جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے انسانوں پراپنی آخری کتاب نازل کرکے اس میں یہ فرمان نازل فرمادیا :
اورجوبھی دین اسلام کے علاوہ کوئ اوردین تلاش کرے گا اللہ تعالی اس کے اس دین کوقبول نہیں فرماۓ گا اوروہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا
04/08/2023
صحیح عقیدہ
1اس حدیث کا کیا مطلب ہے: (اللہ اس وقت تک نہیں اکتاتا جب تک تم اکتا نہیں جاتے)
حیح بخاری: (43) اور مسلم : (785)میں ہے - یہ الفاظ مسلم کے ہیں- عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آئے اور ایک عورت میرے قریب بیٹھی تھی، تو آپ نے پوچھا: (یہ کون ہے؟) تو میں نے کہا: یہ سوتی نہیں ہے ساری رات نماز پڑھتی ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تم اتنی ہی عبادت کرو جس کی تمہارے اندر طاقت ہے، اللہ کی قسم ! اللہ اس وقت تک نہیں اکتاتا جب تک تم اکتا نہیں جاتے) اور اللہ تعالی کے ہاں محبوب ترین عبادت وہ ہے جس پر ہمیشگی کی جائے ۔
اس حدیث کے ظاہری الفاظ میں اللہ تعالی کےلئے اکتاہٹ ثابت ہوتی ہے لیکن اس انداز سے جو اللہ تعالی کی شان کے لائق ہو۔
شیخ محمد بن ابراہیم آل شیخ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"(بیشک اللہ اس وقت تک نہیں اکتاتا جب تک تم اکتا نہیں جاتے) یہ حدیث اللہ تعالی کی صفات بیان کرنے والی احادیث میں شامل ہے، لیکن یہاں اکتاہٹ اسی انداز سے اللہ تعالی کے لیے ثابت ہو گی جیسے اس کی شان کے لائق ہو، اس میں کسی قسم کی کوئی عیب والی بات نہ ہو، اس کا حکم انہی نصوص جیسا ہے جو کہ ظاہری طور پر میں استہزا، اور مکاری کا معنی دیتی ہیں ۔" ختم شد
فتاوی شیخ محمد بن ابراہیم : (1/ 179)
دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ:
"اس حدیث کو ایسے ہی ماننا واجب ہے جیسا کہ اس میں بیان ہوا ہے، اس میں مذکور صفت پر ایمان رکھنا ضروری ہے لیکن یہ صفت اللہ تعالی کے بارے میں اسی انداز میں ہو گی جیسے اللہ تعالی کی شان کے لائق ہو، اس صفت کے اثبات میں کسی قسم کی مخلوق سے مشابہت نہ ہو، نہ اس کی کیفیت بیان کی جائے، بالکل اسی طرح جیسے کہ اللہ تعالی کے بارے میں مکر، خداع [دھوکا] اور کید [عیاری] کا ذکر قرآن مجید میں ملتا ہے [تو جو طریقہ کار ان صفات کے بارے میں اپنایا جاتا ہے وہی طریقہ صفت اکتاہٹ کے بارے میں اپنایا جائے گا]، تو یہ تمام صفات بھی اللہ تعالی کے شایان شان انداز میں اللہ تعالی کے لیے ثابت ہیں کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُاس جیسا کچھ نہیں ہے ، نیز وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔ [الشورى: 11]"
اللہ تعالی سمجھنے کی توفیق دے، اللہ تعالی ہمارے نبی محمد ، آپ کی آل اور صحابہ کرام پر درود و سلام نازل فرمائے" ختم شد
شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز، شیخ عبد اللہ بن غدیان، شیخ عبد العزیز آل شیخ، شیخ صالح فوزان۔
"فتاوی لجنہ دائمہ" (2/402)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے بھی یہ سوال پوچھا گیا کہ: کیا ہم اللہ تعالی کے لیے اکتاہٹ کی صفت ثابت مانیں؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے حدیث میں ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اللہ اس وقت تک نہیں اکتاتا جب تک تم اکتا نہیں جاتے) تو کچھ علمائے کرام یہ کہتے ہیں کہ اس میں اللہ تعالی کے لیے صفت اکتاہٹ کی دلیل ہے لیکن ان کے ہاں یہ اکتاہٹ ایسی نہیں ہے جیسے مخلوق کو اکتاہٹ ہوتی ہے ؛ کیونکہ مخلوق میں پائی جانے والی اکتاہٹ عیب ہے، کیونکہ مخلوق جس وقت اکتا جائے تو ان میں ذہنی تناؤ اور تھکاوٹ پائی جاتے ہے، جبکہ اللہ تعالی کی جانب اکتاہٹ کی نسبت ہو تو پھر اس میں عیب والی کسی بات کا تصور بھی ممکن نہیں اس میں کمال ہی کمال ہوتا ہے، چنانچہ اس صفت کو دیگر تمام صفات کی طرح کمال پر ہی محمول کریں گے، اگرچہ وہی صفت جب مخلوق میں پائی جائے تو کمال کی دلیل نہیں ہوتیں۔
جبکہ کچھ علمائے کرام کہتے ہیں کہ اس حدیث (اللہ اس وقت تک نہیں اکتاتا جب تک تم اکتا نہیں جاتے) کا مطلب یہ ہے کہ انسان جتنا بھی عمل کر لے اللہ تعالی تمہیں اس کا بدلہ لازمی عطا فرمائے گا، اس لیے جو نیک عمل کر سکتے ہو کرتے جاؤ اللہ تعالی تمہیں ثواب دینے سے نہیں اکتائے گا یہاں تک کہ تم عمل کرنے سے اکتا جاؤ ، اس لیے یہاں پر اکتاہٹ سے مراد اکتاہٹ کا لازم معنی مراد ہو گا۔
اور کچھ اہل علم یہ بھی کہتے ہیں کہ اس حدیث میں صفت اکتاہٹ کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے؛ کیونکہ اگر کوئی شخص کہے: میں اس وقت تک کھڑا نہیں ہوں گا جب تک تم کھڑے نہیں ہوتے، اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ دوسرا شخص کھڑا ہو کر ہی رہے گا، تو اسی طرح اس حدیث میں بھی اللہ تعالی کا صفت اکتاہٹ اور تھکاوٹ سے موصوف ہونا ثابت نہیں ہوتا۔
بہر حال ہم پر یہ واجب ہے کہ ہم اللہ تعالی کے بارے میں یہ عقیدہ رکھیں کہ اللہ تعالی کسی بھی عیب والی صفت سے موصوف نہیں ہے چاہے وہ اکتاہٹ کی ہو یا کوئی اور صفت ہو، لہذا اگر یہ بات ثابت ہو جائے کہ اس حدیث میں صفت اکتاہٹ کی دلیل موجود ہے تو پھر یہاں اکتاہٹ اور تھکاوٹ سے مراد ایسی تھکاوٹ یا اکتاہٹ نہیں ہے جو مخلوق میں پائی جاتی ہے
04/08/2023
2یہ نظریہ رکھنا کہ انسان بھی زلزلہ پیدا کر سکتے ہیں کیا یہ شرک ہے؟
مسلمان کا اس بات کو تسلیم کر لینا کہ کچھ انسان اپنے بعض تجربات کی بنیاد پر زلزلے وغیرہ پیدا کر سکتے ہیں، محض ایسی باتوں سے انسان شرک میں مبتلا نہیں ہوتا؛ کیونکہ اللہ تعالی نے اس کائنات کے لیے کچھ اصول وضع کیے ہیں یہ کائنات انہی اصولوں پر رواں دواں ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالی نے کچھ انسانوں کو کائنات کے ان اصولوں کے متعلق تحقیق کرنے کی صلاحیت بخشی ہے کہ ان کو پہچانیں اور ان سے استفادہ کریں۔ یہ معاملہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کہ اللہ تعالی شفا دینے والا ہے، لیکن شفا کے لیے اللہ تعالی نے کچھ اسباب بھی بنائے ہیں۔
جیسے کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (ہر بیماری کی دوا ہے، جب دوا بیماری کے عین مطابق ہوتی ہے تو اللہ کے حکم سے بیمار صحت مند ہو جاتا ہے۔) مسلم: (2204)
تو اللہ تعالی نے اپنے کچھ بندوں کو ان ادویات کی معرفت سے نواز دیا ہے۔
جیسے کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے بیان کرتے ہیں کہ: (اللہ تعالی نے کوئی بیماری ایسی نازل نہیں کی جس کی دوا نازل نہ کی ہو۔ کھوج لگانے والے اسے جان لیتے ہیں اور جاہل اس سے نابلد رہتے ہیں۔) اسے امام احمد نے مسند : (6 / 50) میں روایت کیا ہے۔
چنانچہ کسی طبیب کا شفا کے ذریعہ کو دریافت کر لینا بھی اللہ تعالی کی مشیئت ، ارادے اور تقدیر کے تحت ہوتا ہے۔ طبیب اور فن طب دونوں ہی اللہ تعالی کی مخلوق ہیں۔
کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ
ترجمہ: اور اللہ تعالی نے تمہیں پیدا کیا اور اسے بھی جو تم عمل کرتے ہو۔[الصافات: 96]
ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں:
"اس آیت میں اس بات کا احتمال ہے کہ "ما" مصدریہ ہو، اس اعتبار سے مفہوم یہ ہو گا کہ اللہ تعالی نے تمہیں بھی پیدا کیا اور تمہارے عمل کرنے کو بھی پیدا کیا۔
اور اس بات کا بھی احتمال ہے کہ "ما" بمعنی "الذی" ہو، تو پھر معنی ہو گا: اللہ تعالی نے تمہیں بھی پیدا کیا اور اسے بھی جو تم عمل کرتے ہو۔
یہ دونوں موقف لازم اور ملزوم ہیں، تاہم پہلا موقف بہتر ہے؛ کیونکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب: "افعال العباد" میں سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے اس کا معنی مرفوعا نقل کیا ہے کہ: یقیناً اللہ تعالی ہر صانع اور اس کی صنعت دونوں کو پیدا کرنے والا ہے۔۔۔" ختم شد
"تفسیر ابن کثیر" (7/ 26)
بالکل ایسے ہی کہ اللہ تعالی نے اپنی کچھ مخلوقات کو چیزوں کے متحرک ہونے کے متعلق اپنے قوانین سمجھا دئیے، جن کی بدولت وہ زمین پر چلنے والی سواریاں ، ہوا میں اڑنے والے جہاز، اور پانی پر تیرنے والی کشتیاں بنانے کے قابل ہو گئے، یہ سب کچھ اللہ تعالی کی مشیئت ، اذن اور تقدیر کی بدولت ہوا، ان چیزوں کو بنانے والے اور ان کی مصنوعات سب کچھ ہی اللہ تعالی کی مخلوق ہیں۔
جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوهَا وَزِينَةً وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُونَ
ترجمہ: گھوڑے، خچر اور گدھے پیدا کیے تا کہ تم ان پر سواری کرو اور ان سے زینت حاصل کرو، اور اللہ تعالی وہ کچھ پیدا فرمائے گا جو تم نہیں جانتے۔ [النحل: 8]
مفسر قرآن علامہ محمد امین شنقیطی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں:
"فرمانِ باری تعالی: وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُونَ یعنی: اللہ تعالی وہ کچھ پیدا فرمائے گا جو تم نہیں جانتے۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے ذکر کیا کہ اللہ تعالی ایسی چیزیں پیدا فرمائے گا جو نزول قرآن کے وقت مخاطب لوگ نہیں جانتے تھے، اور اسم موصول کے ذریعے جو چیز پیدا فرمائے گا اسے مبہم بھی رکھا، اس کی وضاحت بالکل نہیں کی۔ لیکن چونکہ سیاق سواریوں کی نعمتوں کے تذکرے کا چل رہا ہے اس لیے اس میں اشارہ ہے کہ مستقبل میں کچھ پیدا ہونے والی چیزیں سواریاں بھی ہوں گی، چنانچہ اللہ تعالی کی بندوں پر ہونے والی نعمتوں میں اس چیز کا مشاہدہ کیا گیا کہ اللہ تعالی نے بندوں کو ایسی سواریاں عطا فرمائیں جو اس آیت کے نزول کے وقت موجود نہیں تھیں، مثلاً: ہوائی جہاز، ریل گاڑیاں اور کاریں وغیرہ ۔" ختم شد
"أضواء البيان" (3 / 265 – 266)
چنانچہ محض یہ سوچنا کہ اللہ کے بندوں میں سے کچھ ایسے ماہرین بھی ہیں جنہیں اللہ تعالی نے اندھیریوں اور زلزلوں کے رونما ہونے کے اسباب سمجھنے کی صلاحیت دی ہے، بلکہ جب کسی باصلاحیت بندے سے ایسی باتیں سننے کو ملیں تو اسے مان لینا بھی کفر کے درجے تک نہیں پہنچتا، بشرطیکہ ایسے سوچنے اور ان باتوں کو ماننے والا شخص یہ ایمان رکھتا ہو کہ یہ ماہرین اللہ کے پیدا کردہ بندے ہیں، یہ اللہ تعالی کی مشیئت اور تقدیر کے بغیر کچھ نہیں کر سکتے، اس کائنات کے سارے امور صرف اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہیں، ان ماہرین کی کوششیں صرف وہیں کامیاب ہوتی ہیں جن کے کلی یا جزوی اسباب انہیں معلوم ہو چکے ہیں، اور یہ کامیابی بھی اللہ تعالی کی تقدیر ، علم، ارادے اور خلق سے ہی ممکن ہوتی ہے۔
فرمانِ باری تعالی ہے:
قُلْ مَنْ بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ يُجِيرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْهِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ، سَيَقُولُونَ لِلَّهِ قُلْ فَأَنَّى تُسْحَرُونَ
ترجمہ: کہہ دیجیے! کس کے ہاتھ میں ہر چیز کا اقتدار ہے، وہ پناہ دیتا ہے، اس کے مقابلے میں کوئی پناہ نہیں دے سکتا اگر تم جانتے ہو تو بتلاؤ، وہ ضرور کہیں گے: اللہ کے ہاتھ میں اقتدار ہے۔ تو پھر آپ کہیں: تو تمہیں کہاں بہکایا جا رہا ہے؟[المؤمنون: 88 – 89]
یہاں یہ بات بھی مد نظر رہے کہ ایسی چیزوں کے بارے میں مبالغہ آرائی اور انہیں حقیقت سے کہیں زیادہ بڑھاوا دے کر بیان نہیں کرنا چاہیے؛ کیونکہ عام طور پر جو ایسی چیزیں مشہور کر دی جاتی ہیں یا بیان کیا جاتا ہے، اس میں اصل مقصد زلزلہ بپا کرنا نہیں ہوتا، بلکہ زیر زمین سائنسی یا دیگر مقاصد کے لیے دھماکے کیے جاتے ہیں جن کی وجہ سے زمین میں ارتعاش یا حرکت پیدا ہوتی ہے جسے زلزلہ کہہ دیا جاتا ہے، ایسے سائنسی تجربات کی وجہ سے ہونے والے ارتعاش کی شدت میں کمی بیشی بھی ہوتی ہے۔
04/08/2023
3کیا گناہ گار کی وجہ سے اس کے گناہوں کا منفی اثر اہل خانہ پر بھی ہوتا ہے؟
کسی دوسرے کی غلطی کی وجہ سے کسی انسان کا مؤاخذہ نہیں ہو گا، چنانچہ ہر انسان کا محاسبہ اس کے اپنے اعمال کے دائرے میں کیا جائے گا، فرمانِ باری تعالی ہے:
ولا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخرى
ترجمہ: کوئی بوجھ اٹھانے والی جان کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گی۔[فاطر: 18]
تاہم اگر والدہ یا والد کوئی گناہ کرتے ہیں تو یہ ممکن ہے کہ گھر والے بھی اسی ڈگر پر چل پڑیں اور ان کے لیے گناہ میں آسانی کا باعث بنیں۔
مجموع فتاوى الشيخ ابن باز: ( 2/610)
تاہم ایسا بھی ممکن ہے کہ نافرمان کی معصیت کی نحوست کا اثر گھر کے بعض افراد پر ہو جائے تو یہ گناہ گار کے لیے سزا اور اہل خانہ کے لیے آزمائش ہو گا، اللہ تعالی کی طرف سے آنے والی آزمائشیں اس لیے بھی ہوتی ہیں کہ اللہ تعالی اپنے بندے کے گناہ مٹانا چاہتا ہے، اور کبھی اللہ تعالی نعمتیں دے کر بھی آزمائش میں ڈالتا ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
ونَبْلوكُم بالشَّرِ والخيْرِ فتْنَة
ترجمہ: اور ہم تمہیں شر اور خیر دونوں کے ذریعے آزماتے ہیں۔[الانبیاء: 35]
بہ ہر حال مسلمان کو ہر صورت میں اللہ تعالی کی نافرمانی سے بچنا چاہیے تا کہ اس پر اللہ تعالی کی ناراضی اور غضب نازل نہ ہو۔
04/08/2023
4کبیرہ گناہوں کے مرتکب حضرات توبہ کے بغیر فوت ہو جائیں تو ان کا انجام کیا ہو گا؟
"اہل سنت و الجماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ: مسلمانوں میں سے جو شخص بھی زنا، چوری اور تہمت لگانے جیسے کبیرہ گناہوں میں ملوث ہوتے ہوئے فوت ہو جائے تو وہ اللہ تعالی کی مشیئت کے تحت ہو گا، اگر اللہ چاہے گا تو اسے معاف فرما دے گا، اور اگر چاہے تو ایسے گناہوں پر سزا دے دے جن پر وہ مصر رہا ہے، لیکن آخر کار جنت اس کا ٹھکانا ہو گا، اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے: إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ ترجمہ: یقیناً اللہ تعالی شرک کو معاف نہیں کرے گا، جبکہ شرک کے علاوہ جس کے لیے چاہے گا معاف کر دے گا۔[النساء:48] اسی طرح ایسی صحیح اور متواتر احادیث بھی اس بات کی دلیل ہیں جن میں توحید پرست گناہ گاروں کو جہنم سے نکالنے کا ذکر ہے، جیسے کہ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : (ہم نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس تھے تو آپ نے فرمایا: کیا تم میری اس بات پر بیعت کرتے ہو کہ اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراؤ گے، نہ زنا کرو گے اور نہ ہی چوری کرو گے ۔۔۔ تم میں سے جو اس بیعت کو پورا کرے گا اس کا اجر اللہ تعالی کے ذمے ہے، اور جو شخص ان گناہوں کا مرتکب ہو اور پھر اسے سزا بھی مل جائے تو یہ سزا اس کے گناہ کا کفارہ ہو گی، جس شخص سے مذکورہ کوئی گناہ سر زد ہو جائے اور اس پر اللہ تعالی پردہ ڈال دے تو اس کا معاملہ اللہ تعالی کے پاس ہے، اگر چاہے تو عذاب دے اور چاہے تو معاف کر دے)
اللہ تعالی توفیق دینے والا ہے، رحمت و سلامتی ہو ہمارے نبی پر، آپ کی آل اور تمام صحابہ کرام پر" ختم شد
دائمی کمیٹی برائے علمی تحقیقات و افتاء
الشیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز الشیخ عبد الرزاق عفیفی الشیخ عبد اللہ غدیان الشیخ عبد اللہ بن قعود
04/08/2023
5حجر اسود کو بوسہ دینے کی حکمت
"طواف کی حکمت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ کہتے ہوئے بیان فرما دی کہ: بیشک بیت اللہ کا طواف ، صفا اور مروہ کی سعی اور جمرات کو کنکریاں مارنا اللہ کا ذکر کرنے کے لئے مقرر کیے گئے ہیں تو بیت اللہ کے ارد گرد چکر لگا کر طواف کرنے والا دل سے اللہ کی تعظیم کرتا ہے اور اس طرح وہ بھی اللہ کا ذکر کرنے والا بن جاتا ہے، چنانچہ طواف کرنے والے کا پیدل چلنا، حجر اسود کو بوسہ دینا یا استلام کرنا، رکن یمانی کا استلام ، اور حجر اسود کی جانب اشارہ بھی اللہ کا ذکر ہے؛ کیونکہ یہ بھی اللہ کی عبادت میں شامل ہے، ذکر کا عمومی معنی دیکھا جائے تو اللہ کی تمام تر عبادات اللہ کا ذکر ہیں، چنانچہ زبان سے ادا ہونے والی تکبیر، ذکر اور دعا وغیرہ کے متعلق تو واضح ہے کہ یہ اللہ کا ذکر ہے، جبکہ حجر اسود کو بوسہ دینا بھی عبادت ہے وہ اس طرح کہ انسان اس سیاہ پتھر کو بوسہ صرف اسی لیے دیتا ہے کہ یہ بھی اللہ کی بندگی اور تعظیم ہے، اسی طرح بوسہ دے کر انسان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع بھی کرتا ہے، جیسے کہ امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ جس وقت انہوں نے حجر اسود کو بوسہ دیا تو فرمایا: "میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے، تو نفع یا نقصان نہیں دے سکتا، اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا"
جبکہ کچھ جاہل لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حجر اسود کو بوسہ دینے کی وجہ حصول برکت ہے، تو اس کی کوئی دلیل نہیں ہے، اس لیے یہ نظریہ باطل ہو گا۔
اور کچھ زندیق قسم کے لوگ یہ اشکال پیش کرتے ہیں کہ بیت اللہ کا طواف بھی ایسے ہی ہے جیسے ولیوں کی قبروں کا طواف کیا جاتا ہے اور یہ بت پرستی میں آتا ہے، تو یہ بات اپنی زندیقیت اور الحاد کی وجہ سے کرتے ہیں؛ کیونکہ اہل ایمان بیت اللہ کا طواف صرف اس لیے کرتے ہیں کہ اللہ تعالی نے اس کا حکم دیا ہے، اور جو کام اللہ کے حکم سے ہو تو وہ کام عبادت ہوتا ہے۔
آپ یہی دیکھ لیں کہ غیر اللہ کو سجدہ کرنا شرک اکبر ہے، لیکن جب اللہ تعالی نے فرشتوں کو کہا کہ آدم کو سجدہ کریں تو یہ سجدہ تو آدم کو تھا لیکن عبادت اللہ کی تھی، اس صورت میں سجدہ نہ کرنا کفر تصور ہوا۔
اس لیے بیت اللہ کا طواف جلیل القدر عبادت ہے، یہ حج کا رکن بھی ہے اور حج اسلام کا ایک رکن ہے، یہی وجہ ہے کہ جب مطاف میں زیادہ رش نہ ہو تو طواف کرنے والے کے دل میں خاص لذت اور اللہ کا قرب محسوس ہوتا ہے، تو اس سے معلوم ہوا کہ طواف کی شان اور فضیلت بہت اعلی ہے۔ واللہ المستعان" ختم شد
فضیلۃ الشیخ محمد بن عثیمین رحمہ اللہ
04/08/2023
شرک اور اس کی اقسام
1ایک شخص کیافہ شناس کے پاس گیا تھا تو کیا وہ توبہ کر سکتا ہے؟ اگر توبہ کرنا چاہے تو کیسے کرے؟
شریعت سے مراد مکمل دین ہے، اسی دین کو اللہ تعالی نے اپنے بندوں کے لیے اس لیے منتخب کیا ہے کہ انہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لے آئے، شریعت سے مراد وہ اوامر و نواہی اور حلال و حرام ہیں جو اللہ تعالی نے لوگوں کو واضح کر کے بتلائے ہیں، اب اگر کوئی شخص اللہ تعالی کی شریعت کی پابندی کرے، شرعی طور پر حلال چیز کو ہی حلال سمجھے، اور شرعی طور پر حرام چیز کو ہی حرام جانے تو وہ کامیاب ہو گیا، جبکہ شریعت الہی کی مخالفت کرنے والا، اپنے آپ کو اللہ تعالی کی ناراضی، غضب اور سزا کا مستحق ٹھہراتا ہے۔
فرمانِ باری تعالی ہے:
ثُمَّ جَعَلْنَاكَ عَلَى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْهَا وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ
ترجمہ: پھر ہم نے آپ کو شریعت کے واضح راستے پر چلا دیا ہے، آپ اسی کی اتباع کریں، علم نہ رکھنے والوں کی خواہشات کے پیچھے مت چلیں۔[الجاثیہ: 18]
خلیل بن احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"شریعت اور اس کی جمع شرائع: دینی امور سے متعلق اللہ تعالی کی طرف سے مقرر کردہ اعمال، اللہ تعالی نے انہیں نماز، روزے، حج اور اسی طرح کی دیگر عبادات بجا لانے کا حکم دیا ہے، اسی کو بسا اوقات شِرعَۃ بھی کہا گیا ہے۔" ختم شد
"العين" (1/ 253) ، اسی طرح دیکھیں: "الصحاح" از جوہری: (3/ 1236)
ابن حزم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"شریعت سے مراد وہ طریقہ ہے جو اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی زبانی بطور دین مقرر فرمایا ہے، اسی طرح آپ سے قبل انبیائے کرام کی زبانی احکامات مقرر فرمائے تھے۔ ان تمام احکامات میں سے صرف ناسخ پر ہی عمل ہو گا۔
لفظ شریعت لغوی طور پر دریا کی ایسی جگہ پر بولا جاتا ہے جہاں سوار اور پیادہ یکساں طور پر پانی پینے کے لیے آ سکیں، فرمانِ باری تعالی ہے:
شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ اللَّهُ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَنْ يُنِيبُ
ترجمہ: اس نے تمھارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا جس کا تاکیدی حکم اس نے نوح کو دیا اور جس کی وحی ہم نے تیری طرف کی اور جس کا تاکیدی حکم ہم نے ابراہیم ،موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا، یہ کہ اس دین کو قائم رکھو اور اس میں فرقے فرقے نہ ہوجاؤ۔ مشرکوں پر وہ بات بھاری ہے جس کی طرف تو انھیں بلاتا ہے، اللہ اپنے ہاں جسے چاہتا ہے چن لیتا ہے اور اپنی طرف راستہ اسے دیتا ہے جو رجوع کرے۔ [الشوری: 13] " ختم شد
"الإحكام" (1/ 46)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"انسان اپنے کسی بھی معاملے میں شریعت سے باہر نہیں جا سکتا؛ کیونکہ اس کے فائدے کے جتنے بھی امور ہیں سب ہی شریعت میں شامل ہیں، چنانچہ بنیادی نوعیت کے امور ہوں یا فروعی نوعیت کے، انسان کی کیفیت سے تعلق رکھتے ہوں یا اعمال سے، سیاست سے یا تجارت سے، یا اس کے علاوہ کسی بھی قسم کے امور ہوں الحمد للہ سب شریعت میں شامل ہیں؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ شریعت اللہ تعالی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سمیت صاحب اقتدار کی اطاعت کا نام ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو، رسول کی اطاعت کرو، اور اپنے حکمران کی۔ [النساء: 59]
اللہ تعالی نے قرآن کریم کی بہت سی آیات میں اپنی اطاعت اور اپنے رسول کی اطاعت کو لازم قرار دیا ہے، نیز اپنی نافرمانی اور اپنے رسول کی نافرمانی کو حرام کہا ہے، اسی طرح اللہ تعالی نے اپنی رضا، مغفرت، رحمت اور جنت کا وعدہ بھی دیا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے پر تمہیں یہ سب کچھ ملے گا، پھر اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی صورت میں جہنم کی دھمکی بھی دی ہے۔ لہذا اب کوئی عالم ہے یا گورنر، یا عبادات گزار ہے یا تاجر؛ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت حصول علم، معرفتِ حکم، امر یا نہی، عمل یا عبادت وغیرہ میں لازمی طور پر کرے۔
شریعت کی حقیقت یہ ہے کہ: رسولوں کی اتباع کریں اور ان کی اطاعت گزاری میں شامل ہو جائیں، بالکل اس کے بر عکس معاملہ بھی ٹھیک ہے کہ ان کی اتباع سے دوری ان کی اطاعت سے دوری ہے۔ جبکہ رسولوں کی اطاعت گزاری ہی دین الہی ہے۔" ختم شد
"مجموع الفتاوى" (19/ 309)
دائمی کمیٹی کے علمائے کرام کہتے ہیں:
"اللہ تعالی کی طرف سے نازل کردہ کتابوں، اور پھر ان کتابوں کے ہمراہ لوگوں کی طرف بھیجے ہوئے رسولوں کا نام شریعت ہے، لوگوں کی طرف رسولوں کو اس لیے بھیجا گیا کہ لوگ ان کتابوں پر عبادت کی نیت سے عمل کریں، قرب الہی تلاش کریں، اور اپنے اعمال رسولوں کے بتلائے ہوئے طریقے کے مطابق کریں۔
اس کے مطابق بہترین اور معتمد طریقہ جس کی روشنی میں اللہ تعالی نے اپنے نبی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو خاتم الرسل بنایا وہ یہ ہے کہ:
وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ
ترجمہ: یقیناً یہ میرا سیدھا راستہ ہے، تم اسی کی اتباع کرو، اور دیگر راستوں کے پیچھے مت پڑو، تو تمہیں اس کے راستے سے بھٹکا دیں گے۔[الأنعام: 153] "
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان بھی ہے کہ: (میری امت 73 فرقوں میں بٹ جائے گی، سارے کے سارے فرقے جہنم میں ہوں گے ما سوائے ایک فرقے کے، کہا گیا: یہ کون ہوں گے ، اللہ کے رسول؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جو شخص بھی میرے اور میرے صحابہ کے نقش قدم پر ہو گا۔) تو یہ بھی شریعت میں شامل ہے۔
شریعت کے مذکورہ بالا تصور سے ہٹ کر، دیگر فرقے مثلاً: صوفی، تیجانی، نقشبندی اور قادری وغیرہ ، تو یہ طریقے بدعت ہیں، انہیں تسلیم کرنا، یا ان راستوں پر چل کر اللہ تعالی کی رضا تلاش کرنا جائز نہیں ہے۔"
"فتاوى اللجنة الدائمة"
04/08/2023
2اپنی اہلیہ کے لیے قرآنی تعویذ تیار کر کے دیا۔
اگر تعویذ قرآنی آیات یا نبوی دعاؤں سے ہٹ کر ہو یا پھر تعویذ میں جادوئی طلسم اور غیر مفہوم عبارتیں ہوں تو علمائے کرام اس بات پر متفق ہیں کہ اسے پہننا حرام ہے، اور یہ شرک ہے۔ لیکن اگر تعویذ قرآنی آیات یا نبوی دعاؤں پر مشتمل ہو تو اس کے متعلق سلف صالحین میں مختلف آرا ہیں، صحیح موقف یہی ہے کہ یہ بھی حرام ہے۔
دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کہتے ہیں:
"اگر تعویذ قرآن کریم سے ہٹ کر کسی اور چیز کا ہو تو یہ حرام ہے، لیکن جب تعویذ قرآنی آیت پر مشتمل ہو تو کچھ اہل علم اسے جائز کہتے ہیں اور کچھ اسے منع قرار دیتے ہیں، تاہم احادیث کے عموم اور سد الذرائع کو مد نظر رکھتے ہوئے اسے منع قرار دینا راجح ہے۔" ختم شد
" فتاوى اللجنة الدائمة " ( 1 / 212 )
اس لیے آپ پر اور آپ سے تعویذ طلب کرنے والی بیوی پر لازمی ہے کہ اس تعویذ کو فوری طور پر اتار دے اور اسے جلا دے، آپ نے بتلایا ہے کہ آپ نے یہ کام جس وقت کیا تھا اس وقت آپ کو اس عمل کے شرک ہونے کا علم نہیں تھا، اس لیے آپ کو مشرک تو شمار نہیں کیا جائے گا، اور نہ ہی اس فعل کی وجہ سے گناہ گار ہوں گے؛ کیونکہ آپ کا شرک یا گناہ کرنے کا ارادہ ہی نہیں تھا، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلَكِنْ مَا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ
ترجمہ: تم سے غیر ارادی طور پر جو کچھ ہو جائے اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں، البتہ گناہ وہ ہے جس کا تم ارادہ دل سے کرو ۔[الاحزاب: 5]
رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا
ترجمہ: اے ہمارے پروردگار! اگر ہم بھول جائیں یا غلطی کر لیں تو ہمارا مواخذہ نہ فرما۔ [البقرۃ: 286]
اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (میری امت سے غیر ارادی کام، بھول چوک اور جبری حالت میں کیے گئے کاموں کو معاف کر دیا گیا ہے۔) تو یہ دلائل اس چیز پر دلالت کرتے ہیں کہ جو شخص نافرمانی کا عمل کرے لیکن اسے یہ علم نہ ہو کہ یہ نافرمانی ہے تو اس پر کچھ نہیں ہے، یقیناً اللہ تعالی نے اسے معاف کر دیا ہے۔
04/08/2023
3نجومیوں کے پاس جانے اور ان کی بات ماننے کا حکم
اس عمل کی حرمت کے لیے متعدد روایات ثابت ہیں، جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
سیدہ صفیہ بنت ابو عبید رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج مطہرات میں سے کسی سے بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو شخص کسی نجومی کے پاس آیا اور اس کی بات کی تصدیق کر دی تو اس کی 40 دن کی نمازیں قبول نہیں ہوں گی) اس کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔
اسی طرح قبیصہ بن مخارق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا: (پرندوں کی آوازوں، ناموں اور انہیں اڑا کر بد فالی لینا، بد شگونی لینا، اور کنکریاں پھینک کر فال نکالنا غیر اللہ کی بندگی میں شامل ہے) اس حدیث کو ابو داود نے حسن سند کے ساتھ بیان کیا ہے۔
نیز امام ابو داود کہتے ہیں: پرندوں کی آوازوں، ناموں اور انہیں اڑا کر بد فالی لینا، ریت میں زائچے بنانا، اور پرندوں کو اڑا کر قسمت کا حال جاننا ، یعنی پرندہ اڑانے سے اگر دائیں جانب جائے تو نیک فال لینا، اور اگر بائیں جانے جائے تو بد شگونی لینا! علامہ جوہریؒ کہتے ہیں: لفظ "جبت" صنم، کاہن، جادوگر اور نجومی وغیرہ پر بھی بولا جاتا ہے۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو شخص تاروں سے کوئی علم حاصل کرے تو اس نے جادو کا ایک حصہ حاصل کیا، جس قدر تاروں سے علم حاصل کرے گا اتنا ہی جادو حاصل کرتا جائے گا۔) اس حدیث کو ابو داود نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔
معاویہ بن حکم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا: میں دورِ جاہلیت سے ابھی حال ہی میں نکلا ہو، اللہ تعالی نے اسلام کا بول بالا فرما دیا ہے، ہمارے قبیلے کے کچھ لوگ کاہنوں کے پاس آیا کرتے تھے، تو ہم کیا کریں؟
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تم ان کے پاس نہ جایا کرو)
میں نے کہا: کچھ لوگ پرندے اڑا کر فال لیتے ہیں؟
تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (پرندہ اڑنے سے فال نہیں نکلتی۔ یہ تو ان کے اپنے خیالات ہوتے ہیں، ان کی ایسی باتیں مت مانو) مسلم
ابو مسعود بدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کتے کی قیمت، زانیہ کی کمائی، اور کاہنوں کی مٹھائی کھانے سے منع فرمایا۔) بخاری، مسلم
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کچھ لوگوں نے کاہنوں کے بارے میں سوال کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: وہ کچھ بھی نہیں جانتے۔ لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! کبھی کبھار وہ بات کرتے ہیں تو بعینہٖ رونما ہو جاتی ہے! تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: یہ وہ حق بات ہوتی ہے جو جن اچک لیتا ہے اور اسے اپنے کاہن دوست کے کان میں ڈال دیتا ہے، اور پھر وہ اس میں 100 جھوٹ شامل کر دیتے ہیں۔) بخاری، مسلم
اسی طرح سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو شخص کسی کاہن کے پاس آ کر اس کی بات مانتا ہے، یا اپنی بیوی کی پچھلی شرمگاہ میں جماع کرتا ہے تو اس نے محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل شدہ وحی سے اظہار لاتعلقی کر دیا۔) اسے ابو داود نے روایت کیا ہے۔
علمائے کرام کہتے ہیں کہ : احادیث میں مذکور تمام امور سے دور رہنا ضروری ہے، چنانچہ ان لوگوں کی طرف جانا، ان کی تصدیق کرنا، اور ان کاموں کے لیے مال و دولت خرچ کرنا حرام ہے، اگر کوئی شخص ان کاموں میں ملوث ہو چکا ہے تو وہ جلد از جلد توبہ کر لے۔
04/08/2023
4بیماری کی تشخیص کے لیے جن سے مدد لینا
کسی بھی قسم کی بیماری کی تشخیص اور علاج کے لیے جنوں سے مدد لینا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ جنوں سے مدد شرک کے زمرے میں آتا ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
وَأَنَّهُ كَانَ رِجَالٌ مِنَ الْإِنْسِ يَعُوذُونَ بِرِجَالٍ مِنَ الْجِنِّ فَزَادُوهُمْ رَهَقًا
ترجمہ: اور بہت سے انسانوں میں سے مرد پناہ طلب کرتے ہیں جن مردوں کی تو ان جنوں نے انہیں مزید ڈرپوک بنا دیا۔[الجن: 6]
اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا يَامَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِ اسْتَكْثَرْتُمْ مِنَ الْإِنْسِ وَقَالَ أَوْلِيَاؤُهُمْ مِنَ الْإِنْسِ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ وَبَلَغْنَا أَجَلَنَا الَّذِي أَجَّلْتَ لَنَا قَالَ النَّارُ مَثْوَاكُمْ خَالِدِينَ فِيهَا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ إِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَلِيمٌ
ترجمہ: اور جس دن اللہ تعالی ان سب کو اکٹھا کر کے فرمائے گا: اے جنوں! تم نے بہت سے انسانوں کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ اس پر جنوں کے انسانی دوست کہیں گے: پروردگار! ہم میں سب نے ایک دوسرے کو فائدہ پہنچایا، اور اب ہم تیری طرف سے مقررہ میعاد پر پہنچ گئے ہیں۔ تو اللہ تعالی فرمائے گا: تمہارا ٹھکانا آگ ہے، تم اس میں ہمیشہ رہو گے، صرف وہی بچے گا جسے اللہ تعالی بچائے گا، بے شک تمہارا پروردگار حکمت والا اور جاننے والا ہے۔[الأنعام: 128]
اس آیت میں ایک دوسرے کو فائدہ پہنچانے کا مطلب یہ ہے کہ: انسانوں نے جنوں کی تعظیم کی اور ان کے سامنے جھکے رہے، اور ان سے پناہ طلب کی، اس کے عوض میں جنوں نے ان کے پھنسے ہوئے کام نکالے اور ان کی من مانیاں پوری کیں۔ اسی میں بیماری کے اسباب اور بیماری کی نوعیت وغیرہ بتلانا بھی شامل ہے، ان کے بارے میں جنوں کو علم ہو سکتا ہے انسانوں کو اس کا علم نہیں ہوتا؛ لیکن کبھی جن جھوٹ بھی بولتے ہیں، اس لیے ان کی ہر بات کو ماننا ممکن نہیں، اس لیے ان کی تصدیق بھی جائز نہیں ہے۔
04/08/2023
5اللہ تعالى كے علاوہ باپ اور كسى بڑے سردار اور شرف و مرتبہ كى قسم اٹھانا
اللہ تعالى كے علاوہ كسى اور كسى قسم اٹھانا حرام ہے، چاہے وہ باپ كى قسم ہو، يا كسى بڑے سردار اور حكمران كى يا كسى صاحب شرف اور مرتبہ كے شرف كى يا اسى كے علاوہ كسى اور كى؛ اس كى دليل مندرجہ ذيل ہے:
نبىكريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ آپ نے فرمايا:
" جو بھى قسم اٹھانا چاہے تو وہ اللہ تعالى كى قسم اٹھائے يا پھر خاموش رہے" متفق عليہ.
اور ايك دوسرى روايت ميں ہے:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جو كوئى بھى قسم اٹھانے والا ہو وہ اللہ تعالى كے علاوہ كسى اور كى قسم نہ اٹھائے"
اسے امام نسائى رحمہ اللہ تعالى نے روايت كيا ہے:
اور ايك روايت ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس نے غير اللہ كى قسم اٹھائى تو اس نے شرك كيا"
دوم:
مسلمان شخص كے شايان شان اور لائق نہيں كہ وہ اللہ تعالى اور غير اللہ كو برابر قرار دے؟ مثلا وطن، بادشاہ اور سردار، وعدہ اور عہد كرنے ميں كہ وہ ان كے ليے كام كرنے كا وعدہ كرے، بلكہ وہ يہ كہے:
ميرا وعدہ ہے كہ ميں اپنے ذمہ اللہ وحدہ كى واجبات ادا كرنے كو پورى كوشش كرونگا، پھر اپنے وطن كى خدمت كرونگا اور مسلمانوں كى مدد و معاونت كرونگا، اور سكاؤٹ كے ان قوانين پر عمل كرونگا جو اللہ تعالى كى شريعت كے مخالف نہ ہونگے.
سوم:
انسان پر واجب ہے كہ اس كے اعمال اللہ تعالى كىشريعت كے موافق ہوں لہذا وہ يہ وعدہ نہ كرے كہ وہ حكومتى قوانين يا كسى بشرى گروہ اور جماعت كے قوانين پر مطلقا عمل كرے گا.
اللہ تعالى ہى توفيق بخشنےوالا ہے .
04/08/2023